وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ۖ وَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ ۖ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۖ وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۖ وَبِعَهْدِ اللَّهِ أَوْفُوا ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
اور یتیم کے مال (152) کے قریب نہ جاؤ، مگر ایسے طریقے سے جو اس کے حق میں بہتر ہو، یہاں تک کہ وہ جوان ہوجائے، اور ناپ اور تول انصاف کے ستھ پورا کرو، ہم کسی پر اس کی طاقت بھر ہی ذمہ داری عائد کرتے ہیں، اور جب بھی کوئی بات کہو تو انصاف کے ساتھ کہو چاہے اس کی زد کسی رشتہ دار پر ہی کیوں نہ پڑے، اور اللہ سے کیے گئے عہد و پیمان کو پورا کرو، اللہ نے تمہیں ان باتوں کا حکم دیا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ :۔ پہلی آیت میں ایک کام کو کرنے اور چار کاموں سے منع کیا گیا ہے۔ اب معاشرے کے نہایت ہی پسماندہ طبقے یتیموں کے مالی حقوق کے تحفظ کا حکم دیا ہے کہ یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ یہاں تک کہ وہ سن بلوغت کو پہنچ جائے۔ شریعت کے مطابق یتیم وہ ہوتا ہے جس کا بلوغت سے پہلے باپ فوت ہوجائے۔ نابالغ بچے میں کاروبار کرنے اور مال کے تحفظ کے سلسلے میں وہ شعور اور پختگی نہیں ہوتی جو جوان اور بالغ بچے میں ہوتی ہے۔ اس لیے حکم دیا کہ یتیم کے مال کے قریب بھی نہیں جانا۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ یتیم کے مال کو ناجائز طریقے سے کھانا سخت منع ہے۔ قرآن مجید کے دوسرے مقامات میں یتیم کی پرورش اس کے مال کا تحفظ کرنا اس کے سرپرست کی ذمہ داری قرار پائی ہے۔ یہاں یتیم کے سرپرست کو دو ہدایات دی گئی ہیں اگر اس کا کوئی اور کاروبار نہ ہو تو وہ نہایت عدل و انصاف کے ساتھ یتیم کے مال سے اپنے مناسب اخراجات پورے کرسکتا ہے جب یتیم عمر اور شعور کے اعتبار سے اپنے معاملات چلانے کا اہل ہوجائے تو اس کا مال گواہوں کی موجودگی میں اس کے حوالے کردینا چاہیے۔ یتیم کے مال کا تحفظ کرنے کے ساتھ سب لوگوں کے مال کو تحفظ دیا گیا ہے کہ ماپ تول میں کمی بیشی کرنے سے بچنا چاہیے کوئی چیز دیتے ہوئے طے شدہ اصول اور پیمانے سے کم نہیں ہونی چاہیے اور جب کسی سے کوئی چیز لی جائے تو پھر بھی عدل و انصاف کے پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے طے شدہ اصول اور پیمانے سے زیادہ نہیں لینی چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی یہ وضاحت فرمائی کہ کاروبار اور معاشرتی زندگی میں جو تمھیں اصول دیے جا رہے ہیں یہ کوئی ایسی پابندی اور بوجھ نہیں جس پر کوئی شخص عمل نہیں کرسکتا۔ شریعت کے تمام اصول اور قانون ایسے ہیں جو انسان کی طاقت و ہمت کے مطابق ہیں۔ آٹھویں نصیحت یہ کی جاتی ہے کہ جب بھی بات کرو تو وہ اخلاق کے مطابق اور منصفانہ ہونی چاہیے۔ بے شک حق گواہی کسی عزیز کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ یہاں تک فرمایا کہ اگرچہ یہ تمھارے اپنے خلاف ہی کیوں نہ ہو تمھیں ہر حال میں سچ اور حق کہنا چاہیے۔ عدالت میں گواہی کے ساتھ اس میں مبلغ کی حق گوئی، جج کا انصاف اور ہر قسم کی گفتگو شامل ہے۔ یہاں نویں اور آخری نصیحت یہ کی جارہی ہے کہ ہر حال میں اپنے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کیا کرو۔ اللہ تعالیٰ سے عہد کرنے کی تین صورتیں مفسرین نے بیان کی ہیں۔ 1۔ عہد سے مراد وہ ازلی عہد ہے جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا تو اس کی پشت پر اپنا دست مبارک رکھتے ہوئے ” کن“ کا حکم صادر فرمایا جس کا معنی ہے کہ ہوجا۔ قیامت تک کے لیے جتنے انسان پیدا ہونے ہیں وہ سب کے سب آدم (علیہ السلام) کے سامنے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان سے یہ استفسار فرما کر عہد لیا کہ کیا میں تمھارا رب ہوں ؟ جس کا سب نے اقرار کیا تو ہی ہمارا رب ہے۔ اس کی تفصیل سورۃ آل عمران : 81میں ملاحظہ فرمائیں۔ 2۔ عہد سے مراد وہ عہد بھی ہے جو انسان کسی مشکل یا عام حالات میں اپنی زبان یا دل ہی دل میں اپنے رب کے ساتھ کرتا ہے وہ گناہوں سے توبہ کی شکل میں ہو یا اللہ تعالیٰ کی کسی نعمت کے بدلہ میں اس کا شکریہ ادا کرنے کی صورت میں۔ اس عہد کی پاسداری بھی آدمی پر لازم قرار دی گئی ہے۔ 3۔ عہد کی تیسری شکل یہ ہے کہ جب فرد یا قوم کا ایک دوسرے سے عہد و پیماں ہو تو اس کی پاسداری کرنا فرض ہے۔ اس عہد کو پورا کرنا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ لہٰذا یہ بھی بالواسطہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ عہد کرنے کے مترادف ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وصیتیں کی گئی ہیں جس کا تمھیں ہر صورت خیال رکھنا ہوگا۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ مَا خَطَبَنَا نَبِیُّ اللّٰہِ (ﷺ) إِلَّا قَالَ لَا إِیمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَۃَ لَہٗ وَلَا دینَ لِمَنْ لَا عَہْدَ لَہٗ)[ رواہ احمد] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں نبی معظم (ﷺ) نے جب بھی ہمیں خطبہ دیا فرمایا جو بندہ امانت دار نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں اور جو شخص وعدہ پورا نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں۔“ (عَن ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (ﷺ) یَقُولُ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ یُّنْصَبُ بِغَدْرَتِہٖ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ) [ رواہ البخاری : کتاب الجزیۃ، باب اثم الغادر للبر والفاجر] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں میں نے نبی معظم (ﷺ) سے سنا آپ (ﷺ) نے فرمایا ہر بد عہد کے لیے ایک جھنڈا ہوگا جو اس کی بد عہدی کی وجہ سے قیامت کے دن نصب کیا جائے گا۔“ (عَنْ سَہْلٍ (رض) قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) أَنَا وَکَافِلُ الْیَتِیمِ فِی الْجَنَّۃِ ہَکَذَا وَأَشَار بالسَّبَّابَۃِ وَالْوُسْطٰی، وَفَرَّجَ بَیْنَہُمَا شَیْئًا )[ رواہ البخاری : باب فضل من یعول یتیما] ” حضرت سہل (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے۔ آپ (ﷺ) نے سبابہ اور درمیانی انگلی سے اشارہ فرمایا اور ان کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رکھا۔“ مسائل : 1۔ کسی کمزور کے ساتھ ظلم نہیں کرنا چاہے۔ 2۔ کاروبار انصاف سے کرنا چاہیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کسی پر بھی اس کی وسعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے۔ 4۔ عدل و انصاف کرنا چاہیے خواہ قرابت داری ہی کیوں نہ ہو۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کے عہد کو وفا کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : یتیم کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے : 1۔ یتیم کے مال کے قریب نہ جائیں مگر احسن طریقہ کے ساتھ۔ (الانعام :152) 2۔ یتیم کا مال کھانے والا اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھر رہا ہے۔ (النساء :10) 3۔ کسی یتیم پر ظلم زیادتی نہیں کرنی چاہیے۔ (الضحیٰ:6) 4۔ یتیموں کو انکے مال لوٹادو۔ (النساء :2) 5۔ والدین، یتیموں، اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے۔ (النساء :36)