فَالِقُ الْإِصْبَاحِ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَنًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ
وہی صبح کا نکالنے (92) والا ہے اور اسی نے رات کو سکون و آرام کا وقت، اور سورج اور چاند کو (مہینہ اور سال کے) حساب کے لیے بنایا ہے، یہ اس ذات کا مقرر کردہ نظام ہے جو زبردست، بڑا علم والا ہے
فہم القرآن : (آیت 96 سے 97) ربط کلام : آفاق سے توحید کے دلائل۔ اللہ تعالیٰ جس طرح ﴿فَالِقُ الْحُبِّ وَالنُّوَیٰ﴾ ہے اسی طرح ﴿فَالِقُ الْاِصْبَاحِ﴾ بھی ہے۔ اسی نے رات کو سکون کے لیے بنایا اور شمس وقمر کو حساب کے لیے۔ ماہ وسال کا حساب انہی سے ہوتا ہے۔ البتہ کہیں سورج سے اور کہیں چاند سے، اسلام نے لوگوں کی آسانی کے لیے سورج کا پیچیدہ حساب چھوڑ کر چاند کا حساب اختیار کیا۔ چاند کے طلوع وغروب سے ماہ وسال کا حساب لگانا آسان تر ہے۔ حج، رمضان، عیدین وغیرہ کا حساب چاند پر مبنی ہے۔ صبح کی تاریکی سے روشنی پھوٹنے کو دانے اور گٹھلی کے پھوٹنے کی مانند ٹھہرایا گیا ہے۔ دونوں سے حیات پھوٹتی ہے۔ نور کا پھوٹنا نباتات اور پودے کے زمین سے پھوٹنے کی مانند ہوتا ہے۔ نور کا تاریکی سے پھوٹ کر نکلنا ایسی حرکت رکھتا ہے جو اپنی شکل میں دانے اور گٹھلی کے پھٹنے سے مشابہ ہوتا ہے۔ اس حرکت کے ساتھ نور کا نکلنا یوں ہے جیسے کہ انگوری مٹی کے پردے میں سے ظاہر ہوتی ہے۔ دونوں میں حرکت، زندگی رونق اور جمال کی صفات وعلامات مشترک ہیں۔ پھر دانے اور گٹھلی کے پھٹنے اور صبح کے پھٹنے میں اور رات کے سکون میں ایک تعلق یہ بھی ہے۔ کہ اس کائنات کے اندر صبح وشام کا آنا، حرکت وسکون کا پیدا ہونا، نباتات اور حیات کے ساتھ براہ راست متعلق ہوتا ہے۔ سورج کے سامنے زمین کا گھومنا، چاند کا اتنے بڑے حجم کے باوجود اور زمین کا اس قدر دوری کے با وجود، سورج کا اتنے بڑے حجم اور حرارت میں اتنا زیادہ گرم ہونے کے باوجود یہ سارے کام کو مل کر انجام دینا اور باشندگان کرۂ ارض کی خدمات ہر وقت اور ہر لمحہ انجام دینا۔ ایک صاحب غلبہ واقتدار اور علیم اللہ کاٹھہرایا ہوا اندازہ ہے۔ اگر یہ اندازہ اور خدائی حساب نہ ہوتا تو زمین پر یوں زندگی نمودار نہ ہوتی۔ نباتات واشجارنہ پھوٹتے، نور و ظلمت اور حیات وموت کا یوں ظہور نہ ہوتا۔ یہ ایک دقیق ٹھہرایا ہوا، مقرر کردہ حساب ہے۔ جس کے ساتھ یہ کائنات بندھی ہوئی ہے۔ یہ کوئی محض اتفاقی حادثہ نہیں۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ زندگی کائنات کے اندرمحض ایک عبوری لمحہ ہے، خالق کائنات کو اس کی کوئی پروا نہیں۔ ایسے اقوال کبھی فلسفہ اور علم کہلاتے تھے۔ مگر علم کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہبے دین حضرات کی اہواء وخرافات ہیں جو ان کے قلوب ونفوس میں رچی ہوئی ہیں۔ انسان جب ان کے فیصلوں کو پڑ ھے تو محسوس کرتا ہے کہ یہ لوگ اپنی مقرر کردہ علمی حدود کی تعریفات سے خود تجاوز اور فرار کر رہے ہیں۔ وہ اللہ سے بھاگنا چاہتے ہیں جس کے دلائل وجودتوحید وقدرت خود ان کے نفوس وقلوب کو گھیرے ہوئی ہیں۔ وہ بھاگ کر جہاں بھی چلے جائیں۔ اللہ کو آخر کار اپنے سامنے پائیں گے۔ پھر وہ گھبرا کر ایک اور راستہ اختیار کریں گے اور آخر کار اس کی انتہا پر بھی انہیں اللہ سامنے ملے گا ! یہ بیچارے مصیبت زدہ مسکین ہیں جو ایک زمانے میں کلیسا اور اس کے اللہ سے بھاگے تھے، مگر اللہ نے ان کی گردنیں پھر اپنے سامنے جھکا لیں۔ وہ اس صدی کے اوائل تک برابر بھاگتے رہے، مگر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا مگر اللہ تعالیٰ تو ان کے تعاقب میں تھا ! اگر وہ پیچھے دیکھیں تو شک کریں گے کہ کلیسا کی دوڑ ان کے پیچھے ابھی ختم نہیں ہوئی۔ اور شاید ان کی طاقت ہی ختم ہوچکی ہے۔ ان بے چارے مساکین کے ” علمی نتائج“ آج خود ان کے مد مقابل بن کر سامنے کھڑے ہیں، بھاگ جانے کا کیا سوال ہے؟ فرینک ایلن جس کے کچھ اقتباسات ہم نے گزشتہ صفحات میں پیش کیے ہیں لکھتا ہے :” زمین کا زندگی کے لیے مناسب ہونا ایسی صورتیں اختیار کرتا ہے کہ ہم اسے محض اتفاق یا حادثہ کہہ سکتے ہیں۔ کیونکہ زمین ایک گول کرّہ ہے جو فضا میں لٹکا ہوا ہے اور اپنے گرد گردش کرتا رہتا ہے۔ اسی سے رات دن کا چکر چل رہا ہے۔ اور وہ سال بھر میں ایک دفعہ سورج کے گرد گھومتا ہے۔ جس سے موسم اور فصول پیدا ہوتے ہیں۔ یہ گھومنا ہمارے اس کرّے کی سطح کو زندگی کی پیدائش اور نشوونما کا مزید صالح جز مہیا کرتا ہے۔ زمین کے ٹھہراؤ کی صورت میں اس قدر مختلف انواع واقسام کی نباتات کا پیدا ہونا اور ان کی نشوونما ممکن نہ ہوتی۔ پھر زمین گیس کے ایک غلاف سے ڈھکی ہوئی ہے۔ جس میں بہت سی ایسی گیسیں موجود ہیں جو زندگی کے لیے لازم ہیں۔ یہ گیسیں بہت بلندی تک زمین کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ جو پانچ سو میل سے زائد فاصلہ ہے۔ پھر ان گیسوں کی موٹائی اس قدر ہے جو لاکھوں کروڑوں شہاب ثاقب کو ہم تک پہنچنے سے روکتی ہے۔ ان تاروں کا ٹوٹنا تیس میل فی منٹ کی رفتار سے بھی تیز تر ہوتا ہے۔ اور یہ فضائی غلا ف جو زمین کو محیط ہے وہ زمین کے درجۂ حرارت کو زندگی کے لیے مناسب حدود کے اندر قائم رکھتا ہے۔ وہ سمندروں سے پانی کے بخارات کو اٹھا کر بر اعظموں کے اندر تک لے جاتا ہے۔ وہاں پر وہ گاڑھا ہو کر بادل بنتا ہے اور بر ستا ہے۔ جو زمین کی مردگی کو زندگی میں بدلتا رہتا ہے۔ بارش خالص پانی کا مصدر ہے اگر وہ نہ ہوتی تو زمین ایک لق ودق صحرا بن کررہ جاتی اور اس میں زندگی کی کوئی علامت باقی نہ رہ سکتی۔ یہاں سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ فضا اور سمندر جو زمین پر ہیں وہ اس کے توازن کو بر قرار رکھنے کی مشینیں ہیں۔“ ان لوگوں کے سامنے علمی دلائل بے شمار موجود ہیں۔ جو ان کے ” اتفاقات“ کے نظر یے کو رد کرتے ہیں اور زندگی کی نشوونما کے متعلق ان کے عجز کا اعلان کرتے ہیں۔ اس طبیعات کے عالم نے جن موافقات اور مناسبات کا ذکر کیا ہے۔ کائنات میں زندگی کے لیے صرف یہی نہیں اور بھی بے شمار اسباب وعلل موجود ہیں۔ اب نتیجہ اس کے سوا نہیں کہ کہا جائے ﴿ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ﴾ اسی ذات نے ہر چیز کو اس کی پیدائش اور رہنمائی بخشی اور ہر چیز کو پیدا فرماکر اس کے خاص اندازے مقرر کیے ہیں۔ ستاروں کی پیدائش اور ان کے مقا صد : ” اور وہ وہی خدا ہے جس نے تمہارے لیے ستارے بنائے تاکہ تم ان سے خشکی وتری کی تاریکیوں میں راستہ پاؤ۔ ہم نے جاننے والوں کے لیے آیات کو کھول دیا ہے۔“ جدید علمی ایجادات چاہے جتنی زیادہ ہوجائیں، لیکن انسان کا اجرام فلکی سے راہ پانا ایسی حقیقت ہے جس کا ظہور ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے، اب بھی ہے اور مستقبل میں بھی ہوگا۔ اسرار کائنات چاہے انسان پر کس قدر منکشف ہوجائیں مگر یہ حقیقت قاہرہ اپنا آپ منواتی رہے گی۔ جدید علوم نے ستا روں کے متعلق بے شمار نئے انکشافات بھی کیے ہیں جو بڑے حیرت انگیز ہیں۔ جس مقام پر تمام انسانی آلات ناکام ہوجائیں، وہاں ستاروں کو دیکھ کر سمتیں متعین کرتے، وقت کا پتہ چلاتے، موسموں کا حال معلوم کرتے، بارش اور آندھی وغیرہ کی پیش گوئی کرتے اور سنتے ہیں۔ ستاروں کا علم نہایت وسیع اور حیرت انگیز ہے۔ ذرا غور کرنے والا اس نتیجے پر پہنچ جاتا ہے کہ اس کارخانہء قدرت کے پیچھے ایک علیم و بصیرہستی کی مشیت وقدرت اور ارادہ کار فرما ہے۔ جو تمام کرّوں کی رفتار اور گردش کا انتظام کرتا ہے اور انھیں باہم تصادم سے بچاتا ہے۔ یہ سب کچھ محض اتفاق کا نتیجہ نہیں ہے، اس کے پیچھے قادر مطلق کی کار فرمائی کام کر رہی ہے۔ اسی لیے اس آیت کے آخر میں فرمایا ہے کہ جاننے والوں کے لیے ہم نے آیات کی تفصیل بیان کردی ہے، ستاروں کی رفتار اور گردش کائنات تو حسی رہنمائی کے لیے ہے مگر تفصیل آیات سے عقل و فکر کو رہنمائی میسر آتی ہے۔ (ماخوذ از ظلال القرآن ) نظام فلکی اور علم نجوم کی حقیقت : قرآن و حدیث میں کافی تفصیل کے ساتھ زمین و آسمان کی ساخت‘ ہیئت اور ان کی وسعت وکشادگی کے بارے میں بتلایا گیا ہے۔ آسمان کی ساخت کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ستارے آسمان کی خوبصورتی اور سجاوٹ کے ساتھ مسافروں کی رہنمائی اور نظام فلکی کی حفاظت کے لیے بنائے گئے ہیں۔ انسان کی قسمت اور تقدیر کے ساتھ ان کا کوئی واسطہ نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ایسا نظام ہے جس میں نہ کوئی مداخلت کرسکتا ہے اور نہ ہی ان کی گردش وتغیر کے بارے میں کوئی علم کامل رکھتا ہے۔ نبی محترم (ﷺ) کے زمانے میں رات کے وقت ایک دفعہ بارش ہوئی تو آپ نے صبح کی نماز کے بعد فرمایا کہ آج کچھ لوگ ابرباراں کی وجہ سے ہدایت یافتہ ٹھہرے کچھ لوگ اسی بارش کی وجہ سے گمراہی کے گھاٹ اتر گئے۔ صحابہ (رض) کے استفسار پر وضاحت فرمائی کہ جن لوگوں نے یہ عقیدہ ٹھہرایا کہ بارش ستاروں کی وجہ سے ہوئی ہے وہ گمراہ ہوگئے اور جنہوں نے بارش کو فضل ربی قرار دیا وہ ہدایت پر قائم رہے۔ علم نجوم کی مرکزیت اور دارومدار ستاروں کی گردش پر ہے۔ اس علم کی بنیادنجومیوں نے سورج کی منازل پر قائم کی ہے۔ جس کو قرآن مجید نے منازل اور بروج کا نام دیا ہے۔ بروج کی تفصیلات جاننے سے پہلے نظام فلکی کی ایک جھلک کا نظارہ فرمائیں۔ ﴿اَلَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقاً مَاتَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ھَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئاً وَّھُوَ حَسِیْرٌ وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَآء الدُّنْیَا بِمَصَا بِیْحَ وَجَعَلْنٰھَا رُجُوْ ما لّلشَّیٰطِیْنِ وَاَعْتَدْنَا لَھُمْ عَذَاب السَّعِیْرِ﴾ [ الملک : 3تا5] ” اسی نے سات آسمان تہ بہ تہ پیدا کیے۔ تم رحمن کی پیدا کردہ چیزوں میں کوئی بے ربطی نہیں دیکھ سکتے۔ ذرا دوبارہ آسمان کی طرف دیکھو، کیا تمھیں اس میں کوئی خلل نظر آتا ہے؟ پھر اسے بار بار دیکھو۔ تمہاری نگاہ تھک کر ناکام پلٹ آئے گی۔“ ﴿وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوْجاً وَّزَیَّنّٰھا للنّٰظِرِیْنَ وَحَفِظْنٰھَا مِنْ کُلِّ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍ اِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَاَتْبَعَہٗ شِھَابٌ مُّبِیْنٌ﴾ [ الحجر : 16تا18] ” بلا شبہ ہم نے آسمان میں بروج بنائے اور دیکھنے والوں کی لیے انھیں خوبصورت بنایا اور ہر شیطان مردود سے محفوظ کردیا ہاں اگر شیطان چوری چھپے سننا چاہے توایک چمکتا ہوا شعلہ اس کے پیچھے لگ جاتا ہے۔“ ﴿فَالتّٰلِیٰتِ ذِکْرًا اِنَّ اِلٰھَکُمْ لَوَاحِدٌ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَابَیْنَھُمَا وَرَبُّ الْمَشَارِقِ اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآء الدُّنْیاَ بِزِیْنَۃِ نِ الْکَوَاکِبِ وَحِفْظاً مِّنْ کُلِّ شَیْطَانٍ مَّارِدٍ لَا یَسَّمَّعُوْنَ اِلَی الْمَلأَِ الْاَعْلٰی وَ یُقْذَفُوْنَ مِنْ کُلِّ جَانِبٍ دُحُوْرًا وَّلَھُمْ عَذَابٌ وَّاصِبٌ﴾ [ الصافات 3تا9] ” پھر ان کی قسم جو کہ تلاوت کرنے والے ہیں۔ بلاشبہ تمہارا الٰہ ایک ہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا پروردگار ہے۔ اور ان چیزوں کا بھی جو ان دونوں کے درمیان ہیں اور مشرقوں کا بھی پروردگار ہے۔ بلاشبہ ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے مزین کیا اور اسے ہر سرکش شیطان سے محفوظ بنا دیا۔ وہ عالم بالا کی باتیں سن ہی نہیں سکتے۔ ہر طرف سے ان پر شہاب پھینکے جاتے ہیں تاکہ وہ بھاگ کھڑے ہوں۔ اور ان کے لیے دائمی عذاب ہے۔“ جنات کا اعتراف : ﴿وَاَنَّھُمْ ظَنُّوْاکَمَا ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ یَّبْعَثَ اللّٰہُ اَحَدًا وَاَنَّا لَمَسْنَا السَّمَآءَ فَوَجَدْ نٰھَا مُلِئَتْ حَرَساً شَدِیْداً وَّشُھُبًا وَّاَنَّا کُنَّا نَقْعُدُ مِنْھَا مَقَاعِدَ للسَّمْعِ فَمَنْ یَّسْتَمِعِ الْاٰنَ یَجِدْلَہٗ شِھَابًارَّ صَدًا﴾ [ الجن 7تا9] ” اور یقیناً انسان بھی ایسا ہی خیال کرتے تھے جیسے تم کرتے ہو کہ اللہ کبھی کسی کو دوبارہ نہ اٹھائے گا اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو اسے سخت پہرے دار اور شہابوں سے بھرا ہوا پایا اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہم سننے کے لیے آسمان کے ٹھکانوں میں بیٹھا کرتے تھے مگر اب جو سننے کو کان لگائے تو وہ اپنے لیے ایک شہاب کو تاک لگائے ہوئے پاتا ہے۔“ تعلیم یافتہ حضرات کی فکری کمزوری : علم نجوم کے بارے میں صرف جاہل ہی نہیں بلکہ اچھے بھلے تعلیم یافتہ لوگ بھی تو ہم پرستی کا شکار ہیں۔ یہ لوگ اس قدر اس بیماری کا شکار ہیں کہ پامسٹوں اور علم نجوم جاننے والوں کے پاس جا کر انگوٹھی کا نگینہ‘ گاڑی کی نمبر پلیٹ‘ شادی یا کسی تقریب کا دن مقرر کرنے کیلئے مارے مارے پھر رہے ہیں‘ تاکہ انہیں معلوم ہو سکے کہ کون سے دن اور کس چیز میں ان کیلئے برکت رکھی گئی ہے۔ حالانکہ رحمت اور زحمت‘ برکت اور نحوست صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہی انکے نازل ہونے کے اوقات جانتا ہے۔ کوئی چیز اپنی ذات میں نہ منحوس ہو سکتی ہے اور نہ ہی برکت کا سرچشمہ۔ ان توہّمات سے بچنے کے لیے اسلام نے علم نجوم کو کفر کے مترادف قرار دیا ہے۔ جس سے بچنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ علم نجوم کے بارے میں ترقی یافتہ اقوام کے پراگندہ تصورات : ترقی یافتہ اقوام اپنے مقابلے میں دوسروں کو اجڈ‘ جاہل اور غیر مہذب تصور کرتی ہیں۔ بالخصوص مسلمانوں کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ مسلمان غیر مہذب‘ جاھل اور بنیاد پرست لوگ ہیں۔ حالانکہ اسلام ہی وہ دین ہے جس نے ان فرسودہ خیالات اور تصورات کی نہ صرف حوصلہ شکنی بلکہ مکمل نفی کی ہے۔ ستاروں اور چاند کو مسخر کرنے کا دعوے کرنے والی اقوام ایسے جاہلانہ تصورات رکھتی ہیں کہ انہوں نے ہفتے کے ایام کو انہی بروج اور سیاروں کی طرف منسوب کر رکھا ہے۔ انہوں نے تو ایّام کے نام بھی ستاروں اور سیاروں پر رکھے ہوئے ہیں۔ مثلاً: 1۔ Sun-day (سورج کا دن) 2۔ Mon-day ( چاند کا دن) Moon کا مخفّف ہے۔ 3۔ Tues-day (مریخ کا دن)۔ یہ (Tues) فرانسیسی زبان کے لفظ (Mars) کاترجمہ ہے۔ 4۔ Wednes-day (عطارد کا دن) کیونکہ Wednes کا لفظ فرانسیسی لفظ Mercury کا ترجمہ ہے۔ اور فرانسیسی زبان میں Mercuary سیارہ عطارد کو کہا جاتا ہے۔ 5۔ Thurs-day ( مغربی لغت میں "Thurs" سیارہ مشتری کو کہتے ہیں۔ ترجمہ ہوا ” مشتری کا دن“ 6۔ Fri-day ( زہرہ کا دن) 7۔ Satur-day ( زحل کا دن) کیونکہ سیارہ زحل کو انگریزی زبان میں Saturn کہتے ہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں ہماری کتاب جادو کی تباہ کاریاں اور ان کا شرعی علاج۔) مسائل : 1۔ دن اور رات کا نظام اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ 2۔ سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ ہیں۔ 3۔ ستارے راستے ڈھونڈنے میں معاون ہیں۔ تفسیر بالقرآن: سورج، چاند، ستاروں کے فوائد : 1۔ وہ ذات جس نے ستاروں کو اندھیروں میں تمہاری رہنمائی کے لیے پیدا فرمایا۔ ( الانعام :97) 2۔ یہ لوگ ستاروں کی علامات سے راہ پاتے ہیں۔ (النحل :16) 3۔ چاند، سورج اور ستارے اس کے حکم کے پابند ہیں۔ ( الاعراف :54) 4۔ اللہ تعالیٰ نے سورج کو ضیاء اور چاند کو باعث روشنی بنایا۔ ( یونس :5) 5۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان میں چاند کو روشنی کا باعث اور سورج کو روشن چراغ بنایا۔ ( نوح :16)