وَلَقَدْ جِئْتُمُونَا فُرَادَىٰ كَمَا خَلَقْنَاكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَتَرَكْتُم مَّا خَوَّلْنَاكُمْ وَرَاءَ ظُهُورِكُمْ ۖ وَمَا نَرَىٰ مَعَكُمْ شُفَعَاءَكُمُ الَّذِينَ زَعَمْتُمْ أَنَّهُمْ فِيكُمْ شُرَكَاءُ ۚ لَقَد تَّقَطَّعَ بَيْنَكُمْ وَضَلَّ عَنكُم مَّا كُنتُمْ تَزْعُمُونَ
اور تم ہمارے پاس اکیلے (90) آئے ہو، جیسا کہ ہم نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا، اور وہ سب کچھ اپنے پیچھے چھوڑ آئے ہو جو ہم نے تمہیں دیا تھا، اور ہم تمہارے ساتھ (آج) ان سفارشیوں کو نہیں دیکھ رہے ہیں جن کے بارے میں تمہارا خیال تھا کہ وہ (تمہاری پرورش و پرداخت میں) اللہ کے شریک ہیں، تمہارے آپس کے رشتے ٹوٹ گئے، اور تمہارا خیال بالکل غلط نکلا
فہم القرآن : ربط کلام : دنیا میں کفار اپنی اجتماعی قوت اور مالی و سائل کی بنا پر قرآن مجید اور نبی (ﷺ) کی نبوت کا انکار کرتے ہیں۔ لیکن موت کے بعد سب کو اکیلے، اکیلے رب کے حضور پیش ہونا ہوگا۔ جس کے لیے موت کے بعد اٹھنے اور محشر کے میدان میں حاضری کی کیفیت بیان کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکام سے انحراف اور موت کے بعد اٹھنے کا جو لوگ انکار کرتے ہیں ان کو خبردار کیا گیا ہے۔ کہ اس وقت کا تصور کرو۔ جب اللہ تعالیٰ ایک، ایک کو اپنی بارگاہ میں اس طرح کھڑا کریں گے جس طرح اس نے تمھیں پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے۔ جس دولت پر تم اتراتے ہو، جو اقتدار اور اختیار تمھارے تکبر کا باعث بنا ہے جن پیروں فقیروں اور باطل معبودوں پر بھروسہ کرتے ہوئے موت کا انکار اور ہماری آیات سے انحراف کیا وہ سب کا سب پیچھے رہ جائے گا۔ کوئی ایک شخص بھی تمھاری سفارش کرنے کی جرأت نہیں کرسکے گا۔ اس وقت تمام وسائل ختم اور ہر قسم کے رشتے ناتے کٹ چکے ہوں گے اور وہ زعم بھی ختم ہوجائے گا جس کی بنا پر مشرک دنیا میں شرک کیا کرتے تھے۔ کہ فلاں، فلاں ہمیں اللہ سے چھڑوائے گا۔ ظالم کو اس کی کربناک موت کا احساس دلاتے ہوئے یہ بھی بتلایا جا رہا ہے کہ جس طرح موت و حیات کی کشمکش اور نزع کے عالم میں مرنے والے کی کوئی مدد نہیں کرسکتا اور موت کے فرشتے ظالم کو جھڑکیاں دیتے ہوئے اسے اپنی جان نکالنے کا حکم دیتے ہیں حالانکہ جان نکالنا یعنی روح قبض کرنا مرنے والے کے اختیار میں نہیں یہ اختیار صرف اور صرف روح قبض کرنے والے فرشتہ کو دیا گیا۔ اس کے سوا کوئی کسی کی روح نہیں نکال سکتا۔ بے شک کوئی آگ میں چھلانگ لگائے یاد ریا میں کود پڑے وہ وقت معین سے پہلے مر نہیں سکتا۔ جس طرح موت کی سختیاں اور نزع کی کربناکیاں انسان کو کسی کی مدد اور سہارے کے بغیر ہی برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ ایسے ہی ہر انسان تن تنہا رب کبریا کی عدالت میں پیش ہوگا۔ وہاں نہ سفارشی ہوگا اور نہ ہی کوئی مددگار اور غم خوار قریب آئے گا۔ اس تصور کو یہ کہہ کر مزید واضح کیا گیا ہے کہ تم ایسے ہی اکیلے اکیلے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونے والے ہو۔ جس طرح پیدائش کے وقت انسان اکیلا پیدا ہوتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ تخلیق کے وقت انسان گناہوں سے پاک پیدا ہوتا ہے اور مرتے وقت انسان گناہوں کے انبار ساتھ لے کرجاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو باور کرایا گیا ہے کہ جن سہاروں پہ تم تکیہ اور جن امیدوں کو سہارا بنائے ہوئے ہو۔ وہ سب کی سب دم توڑ جائیں گی اور اس وقت تمھارے اس طرح اوسان خطا ہوں گے کہ کوئی دنیا کے سہاروں کا تصور بھی نہیں کرسکے گا۔ (عَنْ عَائِشَۃ قَالَتْ لَمَّا نَزَلَتْ﴿ وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَکَ الْأَقْرَبِینَ﴾ قَامَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) عَلٰی الصَّفَا فَقَالَ یَا فَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ یَا صَفِیَّۃَ بِنْتَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ یَا بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَا أَمْلِکُ لَکُمْ مِنْ اللّٰہِ شَیْئًا سَلُونِی مِنْ مَالِی مَا شِئْتُمْ)[ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب فی قولہ تعالیٰ ﴿ وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَکَ الْأَقْرَبِینَ﴾] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں جب یہ آیت نازل ہوئی ” اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے“ رسول معظم (ﷺ) نے صفا پر کھڑے ہو کر فرمایا اے فاطمہ میری بیٹی، اے صفیہ بنت عبدالمطلب، اے عبدالمطلب کے خاندان کے لوگو ! میرے مال میں سے جو چاہومانگ لو لیکن اللہ کے ہاں میں تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔“ (عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ إِنَّکُمْ مَحْشُورُونَ حُفَاۃً عُرَاۃً غُرْلًا ثُمَّ قَرَأَ کَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِیدُہُ وَعْدًا عَلَیْنَا إِنَّا کُنَّا فَاعِلِینَ وَأَوَّلُ مَنْ یُکْسٰی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِبْرَاہِیمُ وَإِنَّ أُنَاسًا مِنْ أَصْحَابِی یُؤْخَذُ بِہِمْ ذَات الشِّمَالِ فَأَقُولُ أَصْحَابِی أَصْحَابِی فَیَقُولُ إِنَّہُمْ لَمْ یَزَالُوا مُرْتَدِّینَ عَلٰی أَعْقَابِہِمْ مُنْذُ فَارَقْتَہُمْ فَأَقُولُ کَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ ﴿وَکُنْتُ عَلَیْہِمْ شَہِیدًا مَا دُمْتُ فیہِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِی﴾ إِلٰی قَوْلِہٖ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ)[ رواہ البخاری : کتاب احادیث الانبیاء، باب قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی ﴿وَاتَّخَذَ اللَّہُ إِبْرَاہِیمَ خَلِیلاً﴾ ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا تم لوگوں کو ننگے پاؤ ں، ننگے بدن، بغیر ختنوں کے اکٹھا کیا جائے گا پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی ﴿کَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِیدُہٗ وَعْدًا عَلَیْنَا إِنَّا کُنَّا فَاعِلِیْنَ﴾ اور سب سے پہلے قیامت کے دن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو لباس پہنایا جائے گا میری امت کے بائیں جانب کچھ لوگوں کو علیحدہ کردیا جائے گا میں کہوں گا میری امت میرے اصحاب کدھر گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا یہ لوگ تو آپ کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد دین سے پھر گئے تھے پھر میں اللہ کے نیک بندے عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرح کہوں گا میں تو اس حد تک گواہ ہوں جب تک میں ان میں موجود تھا۔ جب تو نے مجھے فوت کرلیا﴿ وَکُنْتُ عَلَیْہِمْ شَہِیدًا مَا دُمْتُ فیہِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِی﴾ إِلٰی قَوْلِہٖ الْعَزِیزُ الْحَکِیم“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) لِکُلِّ نَبِیٍّ دَعْوَۃٌ مُسْتَجَابَۃٌ وَإِنِّی اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِی شَفَاعَۃً لِأُمَّتِی وَہِیَ نَائِلَۃٌ إِنْ شَاء اللّٰہُ مَنْ مَاتَ مِنْہُمْ لَا یُشْرِکُ باللَّہِ شَیْئًا) [ رواہ الترمذی : کتاب الدعوات عن رسول اللہ باب فضل لا حول ولا قوۃ الا باللہ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا ہر نبی کی ایک مقبول دعا ہوتی ہے اور میں نے وہ دعا اپنی امت کی سفارش کے لیے رکھی ہے۔ انشاء اللہ یہ ہر اس آدمی کو فائدہ دے گی جو شرک کی حالت میں فوت نہ ہوا ہوگا۔“ مسائل : 1۔ لوگ اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں فرداً فرداً بلائے جائیں گے۔ 2۔ لوگوں کو ننگے پاؤں، ننگے بدن اور بغیر ختنہ کے اکٹھا کیا جائے گا۔ 3۔ دنیا کا سازوسامان دنیا میں ہی رہ جائے گا۔ 4۔ دنیا کے تمام، رشتے اور تعلقات ختم ہوجائیں گے۔ تفسیر بالقرآن : قیامت کے دن کسی کی سفارش قبول نہیں ہوگی : 1۔ کون ہے جو اس کے حکم کے بغیر سفارش کرے۔ (البقرۃ:255) 2۔ کافر قیامت کے دن سفارشی تلاش کریں گے۔ (الاعراف :53) 3۔ قیامت کے دن سفارشی کسی کو فائدہ یا نقصان نہیں دیں گے۔ (یونس :18) 4۔ سفارش بھی اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہوگی۔ (الانبیاء :38) 5۔ اللہ تعالیٰ اپنی پسندکی بات ہی قبول فرمائیں گے۔ (طٰہٰ:109) 6۔ قیا مت کے دن کسی سفارشی کی سفارش کام نہیں آئے گی۔ (المدثر :38) 7۔ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش نہیں کرسکے گا۔ (یونس :3)