قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخَذَ اللَّهُ سَمْعَكُمْ وَأَبْصَارَكُمْ وَخَتَمَ عَلَىٰ قُلُوبِكُم مَّنْ إِلَٰهٌ غَيْرُ اللَّهِ يَأْتِيكُم بِهِ ۗ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ ثُمَّ هُمْ يَصْدِفُونَ
آپ پوچھئے تمہارا کیا خیال (46) ہے، اگر اللہ تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں لے لے، اور تمہارے دلوں پر مہر لگا دے، تو کیا اللہ کے علاوہ کوئی معبود ہے جو وہ چیزیں تمہیں دوبارہ عطا کردے، آپ دیکھ لیجئے کہ ہم نشانیوں کو کس طرح مختلف انداز میں پیش کرتے ہیں، لیکن وہ پھر بھی اعراض سے ہی کام لیتے ہیں
فہم القرآن : ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے عذاب کی یہ بھی ایک شکل ہے کہ وہ سننے، دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں سلب کرلیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی گرفت اور عذاب کی مختلف شکلیں ہیں جلد یا بدیر دنیا میں کسی نہ کسی عذاب میں مجرم کو مبتلا کرتا ہے یا پھر اس کی سماعت یا بصیرت و بصارت اور تفہیم کی صلاحیتوں کو مسلوب کردیتا ہے جس سے مجرم کو یہ غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ پر ناراض ہونے کے بجائے خوش ہے جس کی بنا پر مجھے دنیا کی فراوانی اور ہر قسم کی آزادی سے نواز رکھا ہے حالانکہ اس کا اصول یہ ہے کہ جسے جرائم میں مزید بڑھانا مقصود ہوتا ہے اس کی حیات مستعار کی رسی دراز کردیتا ہے تاکہ یہ گناہ اور جرائم کرتا رہے اور آخرت میں اسے ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے۔ یہاں اعضاء اور جوارح کے بارے میں یہ احساس دلایا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ تمھاری صلاحیتیں سلب کرلے تو بتلاؤ کہ اس کے سوا کون ان کی قوت کار کو بحال کرسکتا ہے یاد رہے کہ جب اللہ تعالیٰ جسمانی اعضاء میں سے کسی ایک کو مکمل طور پر مفلوج کردیتا ہے تو دنیا کا کوئی ڈاکٹر اور سرجن اسے بحال نہیں کرسکتا۔ مثال کے طور پر اگر کسی شخص کی انگلی کٹ جائے تو دوبارہ انگلی کا وجود میں آنا ناممکن ہے اسی طرح اگر آنکھ اور کان اپنے مکمل نظام کے ساتھ ناکارہ ہوجائیں تو انھیں دوبارہ کا رآمد بنانا کسی سرجن کے بس کا روگ نہیں۔ اس لیے لفظ ” اُنْظُرْ“ کہہ کر توجہ دلائی گئی ہے کہ دیکھو اور غور کرو کہ اللہ تعالیٰ حقائق اور اپنی آیات کو کسی طرح مختلف زاویوں کے ساتھ بیان کرتا ہے لیکن اس کے باوجود لوگ بات سمجھنے اور ہدایت پانے کے لیے تیار نہیں ہوتے یہاں تیسری بار غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے کہ جس عذاب کا تم مطالبہ کرتے ہو وہ اللہ کے لیے مشکل نہیں۔ (اللّٰہُمَّ اجْعَلْ فِی قَلْبِی نُورًا وَفِی بَصَرِی نُورًا وَفِی سَمْعِی نُورًا وَعَنْ یَمِینِی نُورًا وَعَنْ یَسَارِی نُورًا وَفَوْقِی نُورًا وَتَحْتِی نُورًا وَأَمَامِی نُورًا وَخَلْفِی نُورًا وَاجْعَلْ لِیّ نُورًا) [ رواہ البخاری، کتاب الدعوات، باب الدعا اذا انتبدہ بالیل] ” اے اللہ میرے دل میں نور پیدا فرمادے میری نگاہ میں بھی نور، میرے کا نوں میں بھی نور، میرے دائیں بھی نور، میرے بائیں بھی نور، میرے اوپر بھی نور، میرے نیچے بھی نور، میرے آگے بھی نور، میرے پیچھے بھی نور، اور میرے لیے نور پیدا فرما۔“ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ کَانَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) یَقُول اللّٰہُمَّ عَافِنِی فِی جَسَدِی وَعَافِنِی فِی بَصَرِی وَاجْعَلْہُ الْوَارِثَ مِنِّی لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ الْحَلِیمُ الْکَرِیمُ سُبْحَان اللّٰہِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ) [ رواہ الترمذی : کتاب الدعوات عن رسول اللہ، باب ماجاء فی جامع الدعوات عن النبی ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) فرمایا کرتے تھے اے اللہ ! میرے جسم کو عافیت دے اور میری بصارت کو بھی عافیت دے اور میری طرف سے اس کو وارث بنا دے۔ اللہ کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں جو کہ بردبار اور عزت والا ہے، اللہ تعالیٰ پاک ہے اور بہت بڑے عرش کا رب ہے اور تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو کہ تمام جہانوں کا رب ہے۔“ مسائل : 1۔ اگر اللہ تعالیٰ کسی کو اپنی کسی نعمت سے محروم کردے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے واپس نہیں لا سکتی۔ 2۔ اگر اللہ تعالیٰ کسی کو نواز نا چاہے تو کوئی اس کی نوازش کو روک نہیں سکتا۔ تفسیر بالقرآن : آنکھ، کان اور دل اللہ کے قبضہ میں ہیں : 1۔ اللہ نے تمھاری سماعت اور بصارت بنائی ہے۔ (المؤمنون : 78، الملک :23) 2۔ کیا اللہ کے سوا کان اور آنکھ کا کوئی اور مالک ہے ؟ (یونس :31) 3۔ اگر اللہ چاہے تو ان کے کان، آنکھیں چھین لے۔ (البقرۃ:20) 4۔ اللہ نے ان پر لعنت کردی اور بینائی سے محروم کردیا۔ (محمد :23) 5۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی اور ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ (البقرۃ:7)