سورة البقرة - آیت 76

وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَا بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ قَالُوا أَتُحَدِّثُونَهُم بِمَا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ لِيُحَاجُّوكُم بِهِ عِندَ رَبِّكُمْ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور (یہ لوگ) جب مسلمانوں سے ملتے (١٢٣) ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں، اور جب ایک دوسرے سے تنہائی میں ملتے ہیں، تو کہتے ہیں کیا تم انہیں وہ باتیں بتا دیتے ہو جو اللہ نے تمہیں بتائی ہیں، تاکہ وہ اللہ کے حضور انہیں حجت بنا کر تمہارے ساتھ جھگڑیں، کیا تم سمجھتے نہیں ہو

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 76 سے 77) ربط کلام : جس طرح یہودی بہانہ ساز اور متلوّن مزاج ہیں، منافقوں کی بھی یہی عادات ہیں۔ منافقوں کی عادات کا ذکر کرتے ہوئے آیت ١٣ میں یہ بتلایا گیا تھا کہ یہ لوگ ایمان والوں کو ملتے ہیں تو ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے ایمان کے دعویدار بنتے ہیں اور جب اپنے مذہبی پیشواؤں اور لیڈروں کے پاس جاتے ہیں تو انہیں یقین دہانیاں کرواتے ہیں کہ ہم تمہارے ہی ساتھی ہیں۔ یہاں اہل کتاب کے اندرون خانہ کا انکشاف کرتے ہوئے بتلایا جارہا ہے کہ ان کے مذہبی رہنما ان سے کہتے ہیں کہ تورات و انجیل میں بیان ہونے والے حقائق جن میں نبی آخر الزماں {ﷺ}اور قرآن مجید کی تصدیق پائی جاتی ہے۔ ان کا مسلمانوں کے سامنے ذکر کرنا دانشمندی کے خلاف ہے۔ پھر یہ کہہ کر انہیں خوفزدہ کرتے ہیں کہ اس طرح دنیا میں مسلمانوں کے سامنے لا جواب اور آخرت میں تمہارے رب کے ہاں مسلمان تمہارے خلاف گواہی دیں گے۔ اپنی بات کو مؤثر بنانے کے لیے ان کے خطبا اور پیشوا بڑے معصوم بن کر اپنے تقو ٰی کی دھاک بٹھاتے ہوئے فکر آخرت کا تصوردے کر لوگوں کو حقائق کے انکشاف سے روکتے تھے۔ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ لوگ ان حقائق کا انکشاف نہ کریں تو اللہ تعالیٰ سے یہ حقیقت چھپی رہ جائے گی؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہی تورات‘ انجیل نازل فرمائی ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید، لوگوں کی اعلانیہ اور پوشیدہ حرکات و افعال کو جانتا ہے۔ انہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے جو وہ چھپاتے اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں۔ آخرت میں ان کے ظاہر اور باطن کو طشت ازبام کردیا جائے گا۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ انسان کے باطن اور ظاہر سے واقف ہے۔ یہ عقیدہ انسان کو گناہوں سے بچاتا ہے۔