وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَىٰ أُمَمٍ مِّن قَبْلِكَ فَأَخَذْنَاهُم بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ
اور ہم نے آپ سے پہلے دوسری امتوں کے پاس بھی (انبیاء و رسل) بھیجے (44) پھر ہم نے انہیں بھوک اور تکلیف میں مبتلا کیا کہ شاید عاجزی و انکساری اختیار کریں
فہم القرآن : (آیت 42 سے 45) ربط کلام : حقیقت کا انکار کرنے والوں کا دنیا میں انجام جب ان پر ہلکا اور بھاری عذاب آیا تو ان کی قلبی کیفیت اور رد عمل جیسا کہ آیت ٣٧ میں کفار کے مطالبہ کا ذکر ہوا۔ جس میں انھوں نے نبی رحمت (ﷺ) سے کسی معجزہ یا نشانی کا مطالبہ کیا اس کے جواب میں فرمایا گیا کہ اگر اللہ تعالیٰ کا عذاب یا جس قیامت کی آمد کا تم مطالبہ کرتے ہو وہ یکایک تم پر نازل ہوجائے تو کیا پھر بھی تم اللہ تعالیٰ کے سوا اپنے معبود ان باطل سے مدد طلب کرو گے ؟ ہرگز نہیں تمھاری حالت یہ ہوگی کہ تم سب کچھ بھول کر صرف ایک رب کو پکارو گے۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کی نشانی یا اس کے عذاب کا معاملہ ہے تو جان رکھو اس کے عذاب کی مختلف صورتیں ہوا کرتی ہیں۔ جن میں ابتدائی شکل یہ ہوتی ہے اللہ تعالیٰ غربت و افلاس، تنگی اور حالات کی ترشی کے ذریعے لوگوں کو جھنجھوڑتا ہے تاکہ لوگ اپنی روش پر نظر ثانی کریں۔ اس ہلکی پھلکی گرفت میں اس کی رحمت پنہاں ہوتی ہے کہ جو میرے بندے مجھ سے دور اور میری رحمت سے محروم ہوچکے ہیں انھیں معمولی جھٹکے کے ذریعے احساس دلایا جائے کہ تمھیں ادھر ادھر کے سہارے تلاش کرنے اور دوسروں کو خوش کرنے کی بجائے صرف اپنے رب کا سہارا اور اسی کو خوش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ لیکن مسلسل گناہوں کی وجہ سے جب لوگوں کے دل سخت ہوجائیں اور وہ ہلکے پھلکے عذاب سے سبق حاصل کرنے کی بجائے گناہوں اور جرائم کے اس قدر دلدادہ ہوجائیں کہ برائی اور بے حیائی ان کی زندگی کا معمول اور فیشن بن جائے تو ان کو شیطانی کام خوبصورت دکھائی دیتے ہیں گویا کہ شیطان پوری طرح ان پر حاوی اور غالب ہوچکا ہوتا ہے۔ جب یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی ہدایات اور نصائح کو مسلسل نظر انداز کردینے کا وطیرہ اختیار کرتے ہیں تو پھر ان پر دنیا کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں تاکہ گناہ کرنے میں ان کی کوئی حسرت باقی نہ رہے۔ جب یہ اپنی طرز زندگی پر پوری طرح شاداں و فرحاں اور مطمئن ہوجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا عذاب اچانک انھیں آلیتا ہے۔ پھر ایسی قوم کو صفحۂ ہستی سے ناپید کردیا جاتا ہے۔ جس سے نہ صرف ان کے نشانات اور اثرات ختم ہوجاتے ہیں بلکہ مدت دراز تک لوگ ان پر حسرت و افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ مجرموں سے اللہ کی زمین پاک ہوئی، مظلوموں اور مجبوروں کو سکھ کا سانس لینا نصیب ہوا۔ قرآن مجید کے مطالعہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اکثر قومیں جن پر عذاب نازل ہوئے وہ غریب ہونے کے بجائے دولت مند اور ترقی یافتہ ہوا کرتی تھیں۔ ( عَنْ أَبِی قَتَادَۃَ بْنِ رِبْعِیٍّ الْأَنْصَارِیِّ أَنَّہُ کَانَ یُحَدِّثُ أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) مُرَّ عَلَیْہِ بِجِنَازَۃٍ فَقَالَ مُسْتَرِیحٌ وَمُسْتَرَاحٌ مِنْہُ قَالُوا یَا رَسُول اللّٰہِ مَا الْمُسْتَرِیحُ وَالْمُسْتَرَاحُ مِنْہُ قَالَ الْعَبْدُ الْمُؤْمِنُ یَسْتَرِیحُ مِنْ نَصَبِ الدُّنْیَا وَأَذَاہَا إِلَی رَحْمَۃِ اللّٰہِ وَالْعَبْدُ الْفَاجِرُ یَسْتَرِیحُ مِنْہُ الْعِبَادُ وَالْبِلَادُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ)[ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب سکرات الموت] ” حضرت ابو قتادہ بن ربعی الانصاری (رض) بیان کیا کرتے تھے رسول معظم (ﷺ) کے پاس سے جنازہ گزرا نبی محترم (ﷺ) نے فرمایا یہ راحت پا گیا اور اس سے سکون پاگئے صحابہ کرام (رض) نے استفسار کیا اے اللہ کے رسول کون سکون پا گیا اور کس نے اس سے سکون پایا فرمایا؟ آپ نے فرمایا بندہ مومن جب فوت ہوتا ہے تو دنیا کے مصائب اور اذیتوں سے اللہ کی رحمت کی طرف راحت میں چلا جاتا ہے جبکہ ایک فاجر آدمی کی موت سے لوگ، علاقہ، درخت اور جانور سکون محسوس کرتے ہیں۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ تنگدستی و تکلیف کے ذریعے لوگوں کو احساس دلاتے ہیں 2۔ مصیبت میں لوگوں کو اللہ تعالیٰ سے خصوصی دعائیں کرنی چاہییں۔ 3۔ دلوں کے سخت ہونے سے پناہ مانگنی چاہیے۔ 4۔ دنیا کی خوشحالی حق وصداقت کا معیار نہیں ہے۔ 5۔ ظالم لوگ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے دو چار ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : نافرمان لوگوں کے دل سخت ہوجاتے ہیں : 1۔ یہودیوں کے دل پتھروں کی طرح سخت ہوگئے۔ (البقرۃ:74) 2۔ ان کے دل سخت ہوگئے اور شیطان نے ان کے لیے ان کے اعمال خوبصورت بنا دیے۔ (الانعام :43) 3۔ ان کے دل سخت اور عمر لمبی ہوگئی۔ (الحدید :16) 4۔ ان کے دلوں میں بیماری اور سختی ہے۔ (الحج :53) 5۔ سخت دل والوں کے لیے جہنم ہے۔ (الزمر :22)