قُلْ أَرَأَيْتَكُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ أَغَيْرَ اللَّهِ تَدْعُونَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
آپ کہیے تمہارا کیا خیال ہے، اگر تم پر اللہ کا عذاب (43) آجائے، یا قیامت ہی آجائے، تو اگر تم سچے ہو تو کیا غیر اللہ کو ہی پکارتے رہو گے
فہم القرآن : (آیت 40 سے 41) ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ : صحیح العقیدہ شخص عسر، یسر، بیماری، تندرستی، مشکل اور خوشحالی یعنی ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے مشکل کشائی کی تمنا اور آرزو کرتا ہے اس کے مقابلے میں باطل عقیدہ کا حامل انسان آسانی کے وقت اللہ کے سوا دوسروں سے رجوع کرتا ہے اور جب مسائل کے گرداب میں پھنس جائے تو ہر طرف سے مایوس ہو کر اللہ تعالیٰ کو صدائیں دیتا ہے اس کی اسی عادت کے پیش نظر نبی اکرم (ﷺ) کو فرمایا گیا ہے کہ آپ ان سے استفسار فرمائیں کہ اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب ٹوٹے یا تم پر ناگہانی کوئی مصیبت اور قیامت آن پڑے اگر تم واقعی اپنے عقیدے میں سچے ہو تو کیا پھر بھی تم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو پکارو گے ؟ ایسا کبھی نہیں ہوگا بلکہ صرف اور صرف تم اللہ تعالیٰ کو پکارتے ہو اور پکارو گے وہی تمھاری مشکل دور اور تکلیف رفع کرتا ہے مشکل کے وقت جن کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے ہو تم یکسر انھیں بھول جاتے اور چھوڑ دیتے ہو۔ اس سے ثابت ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو پکارنے والا اپنے عقیدہ میں سچا اور مخلص نہیں ہوتا کیونکہ توحید کے بغیر آدمی کو اخلاص اور کسی بات پر قرار نصیب نہیں ہوتا۔ مشرک کی عادت ہے اور تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ جب بھی باطل عقیدہ لوگوں کو کوئی آفت آئے تو وہ اللہ تعالیٰ کو ہی پکارا کرتے ہیں۔ کیونکہ مصیبت کے وقت انسان کے دل و دماغ سے جہالت اور غفلت کے پردے اٹھ جاتے ہیں اور اس کی سوئی ہوئی فطرت سلیم بیدار ہوجاتی ہے جس کی بنا پر وہ صرف اللہ تعالیٰ کو ہی مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتا ہے۔ کیونکہ توحید فطرت کی آواز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے انسان کی جبلت میں سمو دیا ہے۔ علامہ ابن کثیرنے لکھا ہے کہ جب مکہ فتح ہوا تو ابو جہل کا بیٹا عکرمہ (رض) اپنی جان بچانے کی خاطر جدہ کی بندرگاہ پہنچا۔ جب بیڑے پر سوار ہوا تو سفر کے دوران بیڑہ سمندر کے بھنور میں جاپھنسا۔ طوفان اس قدر شدید تھا کہ بادبان نے بیڑے پر سوار لوگوں کو تلقین کی کہ ایسے حالات میں کسی اور کو پکارنے کی بجائے صرف ایک اللہ کو صدا دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا اس لیے ہم سب کو ایک اللہ ہی سے اس گرداب سے نجات کی دعا کرنی چاہیے۔ جناب عکرمہ (رض) کا فرمان ہے کہ میں نے اسی وقت اپنے دل میں فیصلہ کرلیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس مصیبت سے نجات دی تو میں واپس جا کر محمد (ﷺ) کے ہاتھ پر بیعت کرلوں گا کیونکہ مجھے یقین ہوگیا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی نجات دینے والا نہیں ہے۔ چناچہ اس واقعہ کے بعد حضرت عکرمہ بن ابو جہل (رض) مکہ واپس آکر حلقۂ اسلام میں داخل ہوئے اور آخر دم تک نبی محترم (ﷺ) کے جانثار رہے۔ مسائل : 1۔ مشرک مصیبت کے وقت اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں۔ 2۔ مشکل وقت میں مشرک معبودان باطل کو بھول جاتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : اگر مدد کرسکتے ہیں تو اپنے معبودوں کو آواز دو : 1۔ بلاؤ اپنے معبودوں کو اگر تم سچے ہو۔ (البقرۃ:23) 2۔ ان کو ٹھہراؤ ان سے کچھ پوچھنا ہے۔ تمھیں کیا ہوگیا اب ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے۔ (الصافات : 24تا25) 3۔ اللہ کے علاوہ جن معبودوں کا تمھیں زعم ہے انھیں بلاؤ وہ بھی مصیبت دور نہیں کرسکتے۔ (بنی اسرائیل :56) 4۔ بلاؤ تم ان کو وہ تمھیں جواب نہیں دیں گے۔ (الاعراف :194) 5۔ اس دن ان سے کہا جائے گا بلاؤ اپنے معبودان باطل کو، وہ بلائیں گے تو انھیں جواب نہیں ملے گا۔ (القصص :64)