هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن طِينٍ ثُمَّ قَضَىٰ أَجَلًا ۖ وَأَجَلٌ مُّسَمًّى عِندَهُ ۖ ثُمَّ أَنتُمْ تَمْتَرُونَ
اسی نے تمہیں مٹی سے پیدا (3) کیا، پھر (موت کا) ایک وقت مقرر کردیا، اور اس کے نزدیک (دوبارہ اٹھائے جانے کا) ایک اور مقررہ وقت ہے، پھر تم اس میں شبہ (4) کرتے ہو
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ : جس میں توحید کے دلائل بیان کیے جا رہے ہیں۔ جیسا کہ حدیث شریف کے حوالے سے پہلی آیت میں بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان میں سب سے پہلے مٹی کو پیدا فرمایا۔ اب ارشاد ہوا کہ اے انسان ہم نے اسی مٹی سے تمھیں پیدا کیا ہے۔ تخلیق انسانیت کے پہلے مرحلہ کا ذکر کرنے کے بعد اجل کا ذکر کیا ہے۔ اجل کا معنی وہ مدت ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان اور ہر چیز کی مقرر کر رکھی ہے۔ جسے دو حصوں میں بیان کیا گیا ہے۔ پہلی اجل سے مراد انسان اور ہر چیز کی ابتدا اور موت ہے دوسری اجل کا مفہوم قیامت لیا گیا ہے دونوں قسم کی اجل کا ایک وقت مقرر ہے جس میں ایک لمحہ کی تاخیر نہیں ہو سکتی اور دنیا کا کوئی سائنس دان اس اجل کی مدت کو نہیں پا سکتا۔ یہاں انسان کو اس کی تخلیق کے ساتھ اس کی اصلیت بتائی گئی ہے کہ اے انسان ! تو جو کچھ بھی ہوجائے تیری اصلیت مٹی ہے۔ اور بالآخر تجھے اسی میں جانا ہے دوسرے لفظوں میں انسان کی تخلیق سے لے کر اس کی موت اور پھر قیامت کے دن اٹھنے اور اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں پیش ہونے میں کوئی شک نہیں کیا جا سکتا لیکن صد حیف ہے ایسے انسان پر جو نہ صرف اپنی ابتدا اور انجام کو بھول چکا ہے بلکہ وہ خالق حقیقی کے بارے میں بھی شک کرتا ہے۔ (عَن أَبِیْ مُوسَی الْأَشْعَرِیِ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) إِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَۃٍ قَبَضَہَا مِنْ جَمِیعِ الْأَرْضِ فَجَاءَ بَنُو آدَمَ عَلٰی قَدْرِ الْأَرْضِ جَاءَ مِنْہُمْ الْأَحْمَرُ وَالْأَبْیَضُ وَالْأَسْوَدُ وَبَیْنَ ذٰلِکَ وَالسَّہْلُ وَالْحَزْنُ وَالْخَبِیثُ وَالطَّیِّبُ)[ رواہ ابو داود : کتاب السنہ، باب فی القد ر] ” حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو ایک مٹھی سے پیدا کیا۔ جو اس نے ساری زمین سے لی تھی تو آدم کی اولاد زمین کے مطابق ہوئی۔ ان میں سرخ، سفید، سیاہ اور ان کی درمیانی رنگت کے لوگ ہیں ان میں کچھ سخت اور کچھ نرم طبیعت کے لوگ ہیں اسی طرح کچھ نیک اور کچھ بد ہیں۔“ (عَن ابْنِ عُمَرَ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) خَطَبَ النَّاسَ یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَ فَقَال النَّاسُ بَنُو آدَمَ وَخَلَقَ اللّٰہُ آدَمَ مِنْ تُرَابٍ) [ رواہ الترمذی : کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الحجرات] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول معظم (ﷺ) نے فتح مکہ کے موقع پر لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا فرمایا۔“ ﴿خَلَقَ الإِْنسَانَ مِن صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ﴾[ سورۃ الرحمن :14] ” اس نے انسان کو ٹھیکری کی طرح بجنے والی مٹی سے پیدا کیا“ ﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإِْنسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُوْنٍ﴾[ سورۃ الحجر :26] ” اور ہم نے انسان کو گلے سڑے گارے، کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا“ ﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإِْنسَانَ مِن سُلَالَۃٍ مِّنْ طِیْنٍ﴾[ سورۃ المؤمنون :12] ” اور ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔“ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ (رض) قَالَ خَطَّ النَّبِیُّ (ﷺ) خَطًّا مُرَبَّعًا، وَخَطَّ خَطًّا فِی الْوَسَطِ خَارِجًا مِنْہُ، وَخَطَّ خُطُطًا صِغَارًا إِلَی ہَذَا الَّذِی فِی الْوَسَطِ، مِنْ جَانِبِہِ الَّذِی فِی الْوَسَطِ وَقَالَ ہَذَا الإِنْسَانُ، وَہَذَا أَجَلُہُ مُحِیطٌ بِہِ أَوْ قَدْ أَحَاطَ بِہِ وَہَذَا الَّذِی ہُوَ خَارِجٌ أَمَلُہُ، وَہَذِہِ الْخُطُطُ الصِّغَارُ الأَعْرَاضُ، فَإِنْ أَخْطَأَہُ ہَذَا نَہَشَہُ ہَذَا، وَإِنْ أَخْطَأَہُ ہَذَا نَہَشَہُ ہَذَا )[ رواہ البخاری : باب فِی الأَمَلِ وَطُولِہِ ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی (ﷺ) نے چوکور خط کھینچا اور ایک خط اس کے درمیان میں سے کھینچا جو چوکور خط سے باہر نکل رہا تھا اور اس کے ارد گرد چھوٹے چھوٹے اور خط کھینچے آپ نے فرمایا درمیان والا خط انسان ہے اور چاروں طرف سے اس کی اجل اسے گھیرے ہوئے ہے اور یہ جو خط باہر نکل رہا ہے یہ اس کی حرص ہے اور چھوٹے چھوٹے جو خطوط ہیں یہ اس کی خواہشات ہیں اگر ایک سے بچے تو دوسری خواہش دامن تھام لیتی ہے۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو مٹی سے پیدا کیا۔ 2۔ ہر نفس کی موت وحیات کا ایک وقت مقرر ہے۔ 3۔ قیامت کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ تفسیر بالقرآن : ہر چیز کا وقت مقرر ہے : 1۔ ہر امت کے لیے ایک وقت مقرر ہے۔ (الاعراف :34) 2۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کو وقت مقررہ تک ڈھیل دیتا ہے۔ (ھود :104) 3۔ سورج اور چاند اپنے مقررہ وقت کے پابند ہیں۔ (الرعد :2) 4۔ رات اور دن اپنے وقت کے پابند ہیں۔ (الزمر :5) 5۔ جب کسی کی اجل آجائے تو اس میں تقدیم و تاخیر نہیں ہوتی۔ ( یونس :49)