بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان، بے حد رحم کرنے والا ہے
سورۃ الانعام کا تعارف : اس سورۃ مبارکہ کا نام آیت 136سے لیا گیا ہے۔ الانعام کا لفظ پورے قرآن میں 30مرتبہ اور اس سورۃ میں 6مرتبہ آیا ہے۔ اس کی آیات 165اور بیس 20رکوع ہیں۔ چند آیات کے سوا پوری کی پوری سورۃ مکہ معظمہ میں نازل ہوئی۔ اس سورۃ مبارکہ کا مرکزی مضمون اللہ تعالیٰ کی توحید ہے مکہ اور اس کے گرد ونواح کا وسیع ترین علاقہ بلکہ پورا حجاز شرک کی غلاظت میں کلی طور پر ملوث تھا جس بناء پر اس میں اللہ کی توحید کے ایسے دلائل دیے گئے ہیں جن کا انکار کرنا کسی عقلمند اور شریف آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔ سورۃ کی ابتداء اللہ تعالیٰ کی حمد و ستائش سے ہوتی ہے کیونکہ وہ ایسی ذات ہے جس نے زمین و آسمان، ظلمت اور روشنی پیدا فرمائی۔ وہی ذات ہے جس نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا اور پھر انسان کی زندگی کا تعین فرمایا وہ زمین و آسمان کی ہر چیز اور انسانوں کی جلوت و خلوت کی حرکات سے ہر لمحہ مکمل آگاہی رکھنے والا ہے۔ لیکن مشرکین اس عقیدہ کو تسلیم کرنے کی بجائے دعوت توحید دینے والی شخصیات کا ہمیشہ سے مذاق اڑاتے آرہے ہیں۔ اگر یہ لوگ دنیا کی تاریخ اور جغرافیہ پر توجہ کریں تو انھیں معلوم ہوجائے گا کہ عقیدہ توحید کی مخالفت کرنے والوں کا دنیا میں کیا انجام ہوا۔ توجہ دلاتے ہوئے یہ بھی بتادیا گیا ہے اگر اللہ تعالیٰ نے اب تک انھیں نہیں پکڑا تو اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اس نے اپنی ذات پر لوگوں پر شفقت و مہربانی کرنالازم قرار دے لیا ہے اس کے بعد درج ذیل توحید کے دلائل دیے ہیں۔ 1۔ اللہ تعالیٰ ہی زمین و آسمان پیدا کرنے والا اور لوگوں کو کھلانے، پلانے والا ہے جبکہ وہ خود کھانے پینے کا محتاج نہیں ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کسی کو تکلیف پہنچانا چاہے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے بچا نہیں سکتی اگر وہ کسی کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرما لے تو اس خیر کو کوئی روک نہیں سکتا۔ 3۔ توحید کا اقرار سب سے بڑی گواہی اور شہادت ہے جس پر ایک داعی کو ہر حال میں قائم رہنا چاہیے۔ 4۔ توحید کا منکر حقیقتاً آخرت کا انکاری ہوتا ہے۔ 5۔ اگر اللہ تعالیٰ کسی کی بصیرت و بصارت اور سماعت کو کلیتاً ختم کر دے تو زمین و آسمان میں کوئی ایسی طاقت نہیں جو ان صلاحیتوں کو واپس لوٹا سکے۔ (46) 6۔ اللہ کے خزانوں اور زمین و آسمان کے غائب کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (50) 7۔ اللہ ہی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں اور وہ بحر و بر کی ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ یہاں تک کہ دنیا میں بیک وقت کھربوں کی تعداد میں درختوں سے گرنے والے پتے بھی اس کے علم اور شمار میں ہوتے ہیں۔ (60) 8۔ وہ ہر اعتبار سے اپنے بندوں پر غالب ہے۔ (61) 9۔ ان دلائل کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا نمرود کے ساتھ مکالمہ ذکر کیا ہے جس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے شمس و قمر اور ستاروں کے حوالے سے توحید کے وہ دلائل دیے کہ نمرود حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سامنے ششدر اور خاموش ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) چیلنج کا ذکر کیا گیا ہے جس میں انہوں نے بےدھڑک ہو کر فرمایا تھا کہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارے شریکوں سے ذرہ کے برابر بھی ڈرنے کے لیے تیار نہیں، اور یا درکھو حقیقی امن مواحد کو حاصل ہوتا ہے۔ اس گفتگو کی تائید میں اٹھارہ انبیاء کا نام لے کر ذکر کیا ہے کہ وہ سب کے سب اللہ کی توحید کے داعی اور شرک کے خلاف بر سر پیکار رہنے والے تھے وضاحت فرمائی کہ شرک اتنا سنگین جرم ہے کہ اگر یہ عظیم شخصیات شرک کا ارتکاب کرتی تو ان کے اعمال بھی ضائع کردیے جاتے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے نباتات، صبح وشام، رات دن، شمس وقمر اور کا ئنات کی بڑی بڑی چیزوں کو اپنی وحدت کی تائید میں دلیل کے طور پر پیش کرتے ہوئے فیصلہ کن انداز میں فرمایا ہے کہ اللہ کی ذات ہر اعتبار سے وحدہ لا شریک ہے وہ لوگوں کو براہ راست دیکھتا ہے لیکن اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا اس کے بعد آیت 157میں سرور دوعالم کو تسلی دی کہ آپ اپنا کام ایک مبلغ کی حیثیت سے کرتے جائیں اور یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو منکرین پر چوکیدار بنا کر نہیں بھیجا۔ ان لوگوں کی حالت تو ہے کہ اگر ان پر فرشتے نازل کردیے جائیں اور ان کے مدفون آباو اجداد زندہ ہو کر انہیں سمجھائیں یہاں تک کہ ہر چیز ان کے سامنے اللہ کی توحید کی گواہی دے پھر بھی یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے کیونکہ یہ اپنی جہالت پر ڈٹ چکے ہیں۔ (111) توحید کے دلائل دینے کے بعد حلال وحرام کے مسائل کا ذکر کیا گیا ہے اور حلال وحرام کے سلسلے میں مشرکین کے خود ساختہ اصولوں کی حقیقت بیان کی کہ ان لوگوں نے اپنی طرف سے طے کرلیا کہ فلاں فلاں جانور کا کھانا ان کے مردوں کے لیے جائز مگر ان کی عورتوں کے لیے حرام ہے۔ پھر مشرکین سے ان کے حلال وحرام کے قواعد کے بارے میں سوالات کرتے ہوئے انہیں چیلنج دیا کہ اگر تمہارے پاس ان کے حق میں کوئی علمی دلائل ہیں تو پیش کرو۔ (148) اس کے بعد آیت 151تا 154میں توحیدو شرک کا بیان، والدین سے حسن سلوک، اولاد کے حقوق، ہر قسم کی بے حیائی سے اجتناب، قتل وغارت سے روکتے ہوئے یتیموں کے ساتھ حسن سلوک، لین دین اور ہر معاملے میں عدل وانصاف کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ یہی صراط مستقیم ہے لوگوں کو اسی کی اتباع کرنا چاہیے۔ سورۃ کا اختتام ان مسائل پر فرمایا کہ اے محبوب (ﷺ) آپ یہ اعلان فرمائیں کہ اللہ کی توحید پر قائم رہنا، اس کی دعوت دینا، غیر اللہ کا انکار کرنا اور نماز، قربانی، موت وحیات کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کرنے کا نام ہی دین اور صراط مستقیم ہے۔ آخر میں فرمایا کہ اللہ ہی تمہیں ایک دوسرے کا خلیفہ بناتا ہے تاکہ تمھیں آزمائے کہ تم اپنے اپنے مقام پر کس قسم کا کردار ادا کرتے ہو۔ اور یاد رکھنا کہ اللہ تعالیٰ بہت جلد تمہارا حساب چکا دینے والا ہے اور حساب لیتے ہوئے ظلم کی بجائے وہ معافی اور شفقت کو زیادہ پسند کرتا ہے۔