يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ فَيَقُولُ مَاذَا أُجِبْتُمْ ۖ قَالُوا لَا عِلْمَ لَنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ
اللہ تعالیٰ جب (روزِ قیامت) تمام رسولوں (132) کو جمع کرے گا، تو ان سے پوچھے گا کہ تمہیں (تمہاری دعوت حق کا قوموں کی طرف سے) کیا جواب ملا، تو (خوف و دہشت کے مارے صرف اتنا) کہیں گے کہ ہمیں کوئی خبر نہیں، بے شک تو ہی تمام غیبی امور کا جاننے والا ہے ہے
فہم القرآن : ربط کلام : حق کی شہادت دینا مسلمان کا فریضہ ہے جو انبیاء کا مشن ہے۔ جب انبیاء کرام (علیہ السلام) سے ان کے مشن کے بارے میں سوال ہوگا تو انکے متبعین کس طرح مسؤ لیت سے بچ سکتے ہیں۔ اسلام کے بنیادی عقائد میں تین باتیں مرکزی حیثیت رکھتی ہیں اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کو یکتا جانتے ہوئے اس پر کامل ایمان رکھنا، حضرت محمد (ﷺ) کو خاتم المرسلین مانتے ہوئے ان کی رسالت پہ ایمان لانا، تیسرا بنیادی عقیدہ یہ ہے آدمی کا قیامت پر ایمان ہو کہ وہ قائم ہوگی اور ہم سب نے رب کبریا کی عدالت میں اپنی ہر بات اور عمل کا جواب دینا ہے۔ قیام قیامت کے بارے میں قرآن مجید میں بڑی شرح و بسط کے ساتھ دلائل دیے گئے ہیں یہ ایسا دن ہے کہ جبرائیل امین (علیہ السلام) اور تمام ملائکہ ( علیہ السلام) قطار اندر قطار رب کبریا کی بارگاہ میں کھڑے ہوں گے۔ یہ پچاس ہزار سال کا دن ہوگا۔ اس میں ہر نبی وقت مقررہ پر اپنی امت کو لے کر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوگا۔ یہاں ہر فرد کو اس کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے بارے میں سوال ہوگا۔ قرآن مجید کی تلاوت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب انبیاء (علیہ السلام) اپنی امتوں کے ساتھ پیش ہوں گے تو اللہ تعالیٰ پہلے اس امت کے نبی سے سوال کرے گا کہ آپ نے میرا پیغام ٹھیک ٹھیک طریقے سے پہنچایا یا نہیں ؟ اس کے جواب میں تمھاری امت نے کیا وطیرہ اختیار کیا ؟ انبیاء کرام (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد کناں ہوں گے کہ الٰہی ہم تو نہیں جانتے آپ ہی غیب کو جاننے والے ہیں۔ انبیاء کا لا علمی کا اظہار کرنے کے بارے میں مفسرین نے تین قسم کی تفسیر کی ہے : 1۔ ﴿لاَ عِلْمَ لَنَا﴾ کہ ہمیں علم نہیں سے مراد علم کا مل ہے۔ کیونکہ علاَّمُ الغیوب کے لفظ ظاہر کر رہے ہیں کہ انبیاء صرف انھی حالات سے واقف تھے اور ہوتے ہیں جو ان کے سامنے ظاہر ہوتے ہیں۔ لوگوں کی خلوت کی زندگی کو انبیاء (علیہ السلام) نہیں جانتے۔ 2۔ ﴿لاَ عِلْمَ لَنَا﴾ کا یہ معنی ہے کہ جب تک ہم ان میں موجود رہے اس وقت تک تو ہمیں کچھ نہ کچھ ان کے حالات کا علم ہے لیکن ان کے بارے میں کامل اور اکمل علم تیرے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ﴿فَکَیْفَ إِذَا جِئْنَا مِن کُلِّ أمَّۃٍ بِشَہِیدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلَی ہَؤُلاء شَہِیدًا﴾[ النساء :41) ” بھلا اس وقت کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے، پھر ان پر (اے نبی (ﷺ) آپ کو گواہ بنا دیں گے۔“ 3۔ انبیاء اپنی امتوں کے بارے میں شہادت دیں گے لہٰذا اس آیت کا یہ مفہوم لینے میں کوئی حرج معلوم نہیں ہوتاکہ اللہ تعالیٰ کے جلال اور دبدبہ کی وجہ سے انبیاء کرام (علیہ السلام) پہلے لا علم لنا کا اظہار کریں گے۔ بہر حال قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بات مسلمہ ہے کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) وہی کچھ جانتے تھے جس کا علم اللہ تعالیٰ انھیں عطا کیا تھا یا جو کام ان کی موجودگی میں ہوا کرتے تھے۔ مسائل : 1۔ قیامت کے دن تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) سے بھی سوال ہوگا۔ 2۔ انبیاء و رسل ( علیہ السلام) سے ان کی رسالت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ 3۔ صرف اللہ تعالیٰ ہی عالم الغیب ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ ہی غیب جانتا ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کے غیب کے بارے میں جانتا ہے۔ (البقرۃ:33) 2۔ اللہ تعالیٰ چھپی ہوئی چیزوں کے بارے میں خوب جانتا ہے۔ (البقرۃ:33) 3۔ اللہ تعالیٰ سینوں میں چھپی باتوں کو جانتا ہے۔ (فاطر :38) 4۔ اللہ تعالیٰ ہر عمل کو خوب جانتا ہے۔ (الحجرات :18) 5۔ اللہ کے پاس ہی غیب کی چابیاں ہیں۔ (الانعام :59) 6۔ نبی اکرم (ﷺ) غیب نہیں جانتے۔ (الانعام :50) 7۔ کہہ دیجیے غیب اللہ کے لیے ہے تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔ (یونس :20) 8۔ آسمان و زمین کا غیب اللہ جانتا ہے۔ (النحل :77)