يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ ۖ لَا يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ ۚ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
اے ایمان والو ! تم اپنے بچاؤ کی فکر (130) کرو، اگر تم راہ راست پر چلتے رہو گے، تو کسی دوسرے کی گمراہی تمہیں نقصان نہیں پہنچائے گی، تم سب کو اللہ کے پاس ہی لوٹ کر جانا ہے، پس وہ تمہیں تمہارے کیے کی خبر دے گا
فہم القرآن : ربط کلام : ایک مخلص داعی دلائل کے ساتھ جب کسی شخص کو ہدایت کی دعوت دیتا ہے۔ اور سامع اس کے مقابلے میں بوسیدہ نظریات پیش کرتے ہوئے اپنی جہالت پر اصرار کرے۔ تو داعی کا اس پر دل گرفتہ ہونا فطری بات ہے اسی کیفیت سے صحابہ کرام (رض) دو چار ہوا کرتے تھے جس پر انھیں تسلی دی گئی ہے۔ صحابہ کرام (رض) اپنے اخلاص اور جدوجہد کے مقابلے میں کفار اور اہل کتاب کی ہٹ دھرمی دیکھتے تو انھیں اس بات پر سخت رنج پہنچتا۔ دل گرفتگی کے عالم میں بار بار سوچتے کہ یہ لوگ کس قدر نا عاقبت اندیش ہیں کہ ہم ان کی دنیا وآخرت کی بھلائی کی بات کرتے ہیں اور یہ اسے قبول کرنے کے بجائے ہماری جان کے درپے ہوچکے ہیں۔ اس صورتحال پر مسلمانوں کو اطمینان دلایا گیا ہے کہ تمھیں دل گرفتہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ تمھارا کام حق بات پہنچانا ہے ہدایت دینا نہیں۔ اگر تم ہدایت پر قائم ہو تو گمراہ لوگ تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ بالآخر تم سب نے اپنے اللہ کی طرف لوٹ کرجانا ہے وہ ہر کسی کو اس کے اچھے برے عمل اور اس کے انجام سے آگاہ فرمادے گا۔ ہدایت ایسا گراں قدر سرمایہ ہے جو چاہت اور محنت کے بغیر حاصل نہیں ہوا کرتا۔ اگر یہ لوگ دنیا میں اللہ تعالیٰ کے حکم کو ماننے کے لیے تیار نہیں تو ایک وقت ایسا آنے والا ہے جب سب کے سب بے چون و چراں رب کبریا کی بارگاہ میں حاضر کیے جائیں گے۔ وہ انھیں ایک ایک پل کی خبر اور ہر برے عمل کی سزا دے گا۔ وہاں انھیں نہ بزرگ بچا سکیں گے اور نہ ہی ان کے آباؤ اجداد چھڑا سکیں گے۔ بعض لوگ اس آیت سے غلط استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آدمی کو کسی دوسرے کی فکر کرنے کے بجائے اپنا خیال اور اپنے کام کی طرف دھیان رکھنا چاہیے۔ اس کی بلا سے کوئی جو چاہے کرتا رہے۔ ایسے نام نہاد دانشور تمام احکامات کو جان بوجھ کر فراموش کردیتے ہیں جن میں ہر شخص کو اپنے متعلقین کا مسؤل بنایا گیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں وہ اس امت کے وجود کی ہی نفی کردیتے ہیں حالانکہ اس امت کا مقصد اپنی اور لوگوں کی اصلاح کرنا ہے۔ ﴿کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ للنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ وَلَوْٓ اٰمَنَ أَہْلُ الْکِتَابِ لَکَانَ خَیْرًا لَّہُمْ مِنْہُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَکْثَرُہُمُ الْفَاسِقُونَ﴾[ آل عمران :110] ”(اے مسلمانو!) تم بہترین امت ہو جنہیں لوگوں (کی اصلاح وہدایت) کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ تم لوگوں کو بھلے کاموں کا حکم دیتے ہو اور برے کاموں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو اور اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو یہ ان کے حق میں بہتر ہوتا۔ ان میں سے کچھ لوگ مومن ہیں مگر ان کی اکثریت فاسق ہے۔“ (عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَاب (رض) سَمِعْتُ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) یَقُولُ مَنْ رَأٰی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ فَإِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ فَإِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ وَذٰلِکَ أَضْعَفُ الْإِیمَانِ)[ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب کون النھی عن المنکر من الایمان وان الایمان۔۔ الخ] ” حضرت طارق بن شھاب (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول معظم (ﷺ) سے سنا آپ (ﷺ) نے فرمایا جو کوئی تم میں سے برائی دیکھے اسے چاہیے کہ اسے اپنے ہاتھ سے روکے اگر اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو زبان کے ساتھ روکے اگر وہ اس کی بھی استطاعت نہ رکھتا ہوتووہ دل سے برا جانے۔ یہ ضعیف ایمان کی نشانی ہے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ (رض) یَقُولُ سَمِعْتُ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) یَقُولُ کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ) [ رواہ البخاری : کتاب الجمعۃ، باب جمعۃ فی القری والمدن] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول معظم (ﷺ) سے سنا آپ (ﷺ) نے فرمایا تم میں سے ہر کوئی ذمہ دار ہے اور وہ اپنی ذمہ داری کا جواب دہ ہے۔“ مسائل : 1۔ دوسروں کے بجائے اپنی فکر مقدم ہونی چاہیے۔ 2۔ حقیقی ہدایت یافتہ لوگوں کو کوئی بھی گمراہ نہیں کرسکتا۔ 3۔ تمام لوگوں کو اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے۔ 4۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہر کسی کو اس کے اچھے برے اعمال کی جزا اور سزادے گا۔