لَوْلَا يَنْهَاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ عَن قَوْلِهِمُ الْإِثْمَ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَصْنَعُونَ
ان کے اللہ والے اور ان کے علماء انہیں بری بات (86) کہنے اور حرام خوری سے کیوں نہیں روکتے ہیں، یقیناً ان کا کردار بہت برا ہے
فہم القرآن : ربط کلام : اہل کتاب کے عوام کا کردار بیان کرنے کے بعد ان کے علماء اور نام نہاد صلحاء کے گھناؤنے کردار کا تذکرہ۔ علامہ بیضاوی (رح) ” لولا“ کے الفاظ پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اگر یہ الفاظ ماضی پر داخل ہوں تو اس کا معنی انتباہ (Warning) ہوتا ہے اگر یہ الفاظ مضارع پر وارد ہوں تو اس کا معنی کسی کو آمادہ اور کام پر اکسانا ہوتا ہے۔ ربی کی جمع ربیون ہے یہودی اپنے عالم کو ربی کہہ کر بلاتے ہیں اور حِبَرْ کی جمع احبار ہے جس کا معنی ہے تارک الدنیا اور درویش۔ یہ اصطلاح عام طور پر عیسائیوں میں استعمال ہوتی ہے۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ ربی اور احبار یہود یوں کی اصطلاحات ہیں بہرحال یہاں یہود ونصاریٰ کے علماء اور نام نہاد صلحاء کو مخاطب کرتے ہوئے ترغیب دی جارہی ہے کہ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم لوگوں کو برائی اور حرام خوری سے منع نہیں کرتے۔ تمہیں اپنے برے کردار پرنظرثانی کرنی چاہیے کیونکہ ایسا کردار کسی شریف آدمی کو زیب نہیں دیتا بالخصوص علماء اور صلحاء کی شان کے بالکل منافی ہے۔ علماء کا کام تو لوگوں کی اصلاح اور فلاح کی کوشش کرنا ہے۔ (عَنْ أَبِی سَعِیدِنِ الْخُدْرِیِّ أَنَّ النَّبِیَّ (ﷺ) قَالَ إِنَّ مِنْ أَعْظَمِ الْجِہَادِ کَلِمَۃُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ) [ رواہ الترمذی : کتاب الفتن عن رسول اللہ، باب ماجاء فی افضل الجہاد کلمۃ عدل عند سلطان جائر] ” حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ جابر سلطان کے سامنے عدل کی بات کہنا بڑا جہاد ہے۔“ (عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ رُؤَیْبَۃَ قَالَ رَأَی بِشْرَ بْنَ مَرْوَان َ عَلَی الْمِنْبَرِ رَافِعًا یَدَیْہِ فَقَالَ قَبَّحَ اللّٰہُ ہَاتَیْنِ الْیَدَیْنِ لَقَدْ رَأَیْتُ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) مَا یَزِیدُ عَلَی أَنْ یَقُولَ بِیَدِہِ ہَکَذَا وَأَشَارَ بِإِصْبَعِہِ الْمُسَبِّحَۃِ)[ رواہ مسلم : کتاب الجمعۃ، باب تَخْفِیف الصَّلاَۃِ وَالْخُطْبَۃِ] ” حضرت عمارہ بن رویبہ (رض) کہتے ہیں انہوں نے بشر بن مروان (رض) کو دونوں ہاتھ منبر پر اٹھاتے ہوئے دیکھا تو انھوں نے کہا اللہ ان دو نوں ہا تھوں کو تباہ کردے میں نے رسول معظم (ﷺ) کو دیکھا وہ صرف اپنے ہاتھ کی شہادت کی انگلی کے ساتھ اشارہ کیا کرتے تھے۔“ ( عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) لَمَّا وَقَعَتْ بَنُو إِسْرَاءِیلَ فِی الْمَعَاصِی نَہَتْہُمْ عُلَمَاؤُہُمْ فَلَمْ یَنْتَہُوا فَجَالَسُوہُمْ فِی مَجَالِسِہِمْ وَوَاکَلُوہُمْ وَشَارَبُوہُمْ فَضَرَبَ اللّٰہُ قُلُوبَ بَعْضِہِمْ بِبَعْضٍ وَلَعَنَہُمْ عَلٰی لِسَانِ دَاوُدَ وَعِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکَانُوا یَعْتَدُونَ قَالَ فَجَلَسَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) وَکَانَ مُتَّکِءًا فَقَالَ لَا وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ حَتَّی تَأْطُرُوہُمْ عَلَی الْحَقِّ أَطْرًا) [ رواہ الترمذی : کتاب التفسیر، باب و من سورۃ المائدۃ ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا جب بنی اسرائیل کے لوگ گناہوں میں مبتلا ہوئے تو ان کے علماء نے ان کو روکاجب وہ نہ رکے۔ ان کے علماء نے بھی ان کی مجالس میں بیٹھنا شروع کردیا حتیٰ کہ ان کے ساتھ ہی کھانا پینا شروع کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں با ہم نفرت ڈال دی۔ حضرت داؤد اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعے ان پر لعنت فرمائی یہ اس وجہ سے کہ یہ گناہ اور زیادتی کرنے والے تھے۔ حضرت عبداللہ کہتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) ٹیک لگا کر تشریف فرما تھے سیدھے بیٹھ کر آپ نے فرمایا نہیں اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! یہاں تک کہ تم ان کے خلاف حق کی خاطر پوری طرح ڈٹ جاؤ۔“ (عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ یَزِیدَ أَنَّہَا سَمِعَتِ النَّبِیَّ (ﷺ) یَقُولُ مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ لَمْ یَرْضَ اللّٰہُ عَنْہُ أَرْبَعِینَ لَیْلَۃً فَإِنْ مَاتَ مَاتَ کَافِرًا وَإِنْ تَابَ تَاب اللّٰہُ عَلَیْہِ) [ مسند احمد : کتاب من مسند القبائل، باب من حدیث اسماء بنت یزید] ” حضرت اسماء بنت یزید فرماتی ہیں میں نے نبی مکرم (ﷺ) کو یہ فرماتے ہوئے سنا آپ نے فرمایا جو بھی شراب پیے اللہ تعالیٰ اس سے چالیس دن تک راضی نہیں ہوگا۔ اگر وہ مر گیا تو وہ کفر کی حالت میں مرے گا۔ اگر اس نے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ کو قبول فرمائے گا۔“ (عَنْ أَبِیْ سَعِیدٍ الْخُدْرِیُّ (رض) سَمِعْتُ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) یَقُولُ مَنْ رَأَی مُنْکَرًا فَغَیَّرَہُ بِیَدِہِ فَقَدْ بَرِءَ وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ أَنْ یُغَیِّرَہُ بِیَدِہِ فَغَیَّرَہُ بِلِسَانِہِ فَقَدْ بَرِءَ وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ أَنْ یُغَیِّرَہُ بِلِسَانِہِ فَغَیَّرَہُ بِقَلْبِہِ فَقَدْ بَرِءَ وَذَلِکَ أَضْعَفُ الإِیمَانِ) [ رواہ النسائی : باب تَفَاضُلِ أَہْلِ الإِیمَانِ] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے سنا آپ نے فرمایا جس شخص نے برائی کو دیکھا تو اس نے اسے اپنے ہاتھ سے ختم کیا تو وہ بری ہوگیا اور اگر اس نے اس برائی کو ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہیں پائی تو اس نے اسے اپنی زبان سے روکا تو وہ بھی بری ہوگیا اگر اس نے زبان سے روکنے کی طاقت نہ پائی تو اس نے اسے اپنے دل سے برا جانا تو وہ بھی بری ہوگیا اور یہ سب سے کمتر ایمان ہے۔“ مسائل : 1۔ درویشوں اور علماء لوگوں کو حرام خوری اور برے کاموں سے منع کرنا چاہیے۔ 2۔ برائی سے نہ روکنا بھی برائی ہے۔