يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ۚ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
اے ایمان والو ! تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھرجائے گا، تو اللہ تعالیٰ عنقریب ایسے لوگوں (77) کو لائے گا جن سے اللہ محبت کرے گا، اور وہ اللہ سے محبت کریں گے، جو مومنوں کے لیے جھکنے والے اور کافروں کے لیے سخت ہوں گے، اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے، اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے، یہ اللہ تعالیٰ کا انعام ہے، وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے، اور اللہ تعالیٰ بڑی بخشش والا، بڑا علم والا ہے
فہم القرآن : ربط کلام : منافقوں کی خصلتوں کے مقابلے میں مومنوں کی خوبیوں کا تذکرہ۔ اللہ تعالیٰ ایمانداروں کو ایک طرح کا چیلنج دیتا ہے کہ اگر تم اپنے دین سے مرتد ہوجاؤ تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اللہ عنقریب ایسے لوگوں کو دین کے میدان میں لاکھڑا کرے گا۔ جن سے اللہ تعالیٰ محبت کرئے گا اور وہ لوگ اللہ سے محبت کریں گے وہ دین اور اللہ کی محبت میں اس قدر فنا ہوں گے کہ اپنوں کے ساتھ نرم اور کفار پر سخت ہوں گے۔ یہی جذبہ انھیں جہاد فی سبیل اللہ پر آمادہ کرے گا اور انھیں جہاد کرتے ہوئے ملامت کرنے والوں کی ملامت اور کسی کے پراپیگنڈہ کی کوئی پرواہ نہیں ہوگی۔ اس آیت مبارکہ میں یہ بات بھی واضح کردی گئی ہے کہ کفار کا مسلمانوں کے خلاف یہ بھی ایک حربہ ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو جہاد سے روکنے کے لیے پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ مسلمان وحشی اور جنگجو لوگ ہیں۔ اسلام دنیا کے امن کو تباہ کردینے والا مذہب ہے۔ ذرا غور فرمائیں کہ قرآن نے صدیوں پہلے کفار کی جس ملامت کی طرف اشارہ کردیا تھا وہ کس طرح حرف بحرف پوری ہورہی ہے۔ آج پوری دنیا کے کافر جب خودعراق، افغانستان، بوسنیا اور کشمیر پر بم باری کرتے ہیں تو انھیں کوئی شرم نہیں آتی جب مجاہدین دفاع کرتے ہیں تو انھیں تخریب کار اور کیا کیا لقب دیتے ہیں کاش مسلمان سربراہ قرآن کی آواز سنیں اور دشمن کے ایجنٹ کا کردار ادانہ کریں۔ اکثر محدثین نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اس میں مسلمانوں کو آئندہ ہونے والے کچھ لوگوں کے ارتداد کے بارے میں خبر دی گئی ہے۔ اور ان لوگوں کو خوشخبری سنائی گئی ہے جو ارتداد کے دور میں دین پر پکے اور مرتدین کے خلاف جہاد کریں گے۔ چنانچہ رسول اکرم (ﷺ) کی وفات کے فوراً بعد صحابہ کرام (رض) کو مرتدین کا سامنا کرنا پڑا۔ مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ جس کی سرکوبی کے لیے خلیفہ اوّل حضرت ابو بکر صدیق (رض) نے خالد بن ولید (رض) کی کمان میں فوج روانہ کی اس جنگ میں کئی صحابہ (رض) شہید ہوئے۔ ان میں بہت سے حفاظ صحابہ (رض) بھی شامل تھے۔ اس کے بعد کچھ قبائل نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا۔ حضرت ابو بکر صدیق (رض) نے ان سے زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے جہاد کا اعلان کیا۔ بڑے بڑے صحابہ (رض) نے یہ کہہ کر اس کی مخالفت کی کہ ان کے خلاف جہاد کیونکر ہوسکتا ہے ؟ جبکہ یہ لوگ دین کے باقی ارکان پر عمل پیرا ہیں۔ لیکن صدیق اکبر (رض) نے فرمایا جو زکوٰۃ اور نماز میں فرق کرے گا میں اس کے خلاف جہاد ضرور کروں گا۔ بالآخر حضرت عمر (رض) اور ان کے ہم نوا صحابہ کرام (رض) کو اس مسئلہ میں انشراح صدرہوا اور انھوں نے خلیفۃ المسلمین کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ جس کے نتیجے میں مانعین زکوٰۃ نے زکوٰۃ دینے پر آمادگی کا اظہار کیا۔ ان بحرانوں کے ساتھ ہی یہ مسئلہ بھی پیدا ہوا۔ لشکر اسامہ کو روانہ کیا جائے یا کہ بحرانی کیفیت کی بنا پر کچھ عرصہ کے لیے روک لیا جائے۔ اس پر خلیفہ اول نے بڑا مضبوط موقف اختیار فرمایا۔ جس سے امت اعتقادی، مالی، اور سیاسی بحران سے بچ گئی۔ ان حالات میں بہت سے لوگوں نے حضرت ابو بکرصدیق (رض) کو مشورہ دیا کہ وہ وقت کی نزاکت کے پیش نظر جیش اسامہ کو نہ بھیجیں، کیونکہ اسے امن وسلامتی کی حالت میں تیار کیا گیا تھا۔ مشورہ دینے والوں میں حضرت عمر بن خطاب (رض) بھی شامل تھے، مگر حضرت ابو بکر (رض) نے اس بات کو قبول نہ کیا اور جیش اسامہ کو روکنے سے سختی سے انکار کیا اور فرمایا خدا کی قسم ! میں اس جھنڈے کو نہیں کھولوں گا جس کو اللہ کے رسول (ﷺ) نے باندھا ہے۔ خواہ پرندے اور درندے ہمیں مدینے کے ارد گرد سے اچک لیں۔ اگر امہات المومنین کے پاؤں کو کتے گھسیٹ لیں تو بھی میں ضرور جیش اسامہ کو بھیجوں گا۔ اور مدینہ کے ارد گرد کے محافظوں کو حکم دوں گا کہ وہ اس کی حفاظت کریں اور جیش اسامہ کا اس حالت میں جانابڑے مفاد میں رہا اور وہ عرب کے جس قبیلے کے پاس سے بھی گزرے وہ ان سے خوف زدہ ہوجاتا اور وہ لوگ کہتے کہ یہ لوگ اس لیے نکلے ہیں کہ ان کو بڑی قوت حاصل ہے۔ (البدایہ والنہایہ) اس آیت میں مومنین کی پانچ صفات بیان کی گئی ہیں۔ 1۔ مومن اللہ سے محبت کرنے والے ہوتے ہیں۔ 2۔ مومن آپس میں نرم خو اور خیر خواہ ہوتے ہیں۔ 3۔ کفار کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے کی بجائے ان کے کفر سے شدید نفرت کرتے ہیں 4۔ اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لیے کوشش پیہم میں مصروف رہتے ہیں۔ 5۔ دین کی محبت اور جہاد کے راستے میں کسی کی پرواہ نہیں کرتے۔ جہاں تک کفار کے ساتھ سخت گیر ہونے کا تعلق ہے۔ اس کا یہ معنی نہیں کہ مسلمان سماجی اور معاشرتی لحاظ سے بداخلاق ہوتے ہیں بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمان وہ ہے جو اپنے دین پر غیر متزلزل ایمان رکھتا ہو اور جہاد کے وقت کسی رشتہ اور مروّت کی پروا کیے بغیر کفار کے خلاف ڈٹ جائے۔ اس راستے میں بھی حضرت ابو بکر صدیق (رض) تمام صحابہ سے افضل ہیں۔ جب غزوۂ بدر کے بعد ان کا بیٹاعبدالرحمن مسلمان ہوا تو اس نے بدر کا معرکہ بیان کرتے ہوئے اپنے والد ابو بکر (رض) سے کہا جنگ کے دوران ایک موقع ایسا بھی آیا تھا جب آپ میرے نشانے پر تھے، لیکن میں نے اس لیے آپ پر وار نہ کیا کہ آپ میرے والد گرامی ہیں۔ اس کے جواب میں حضرت ابو بکر صدیق (رض) نے فرمایا کہ اگر تم میرے نشانے میں ہوتے تو میں تم پر وار کرنے سے ہرگز نہ چوکتا۔ (البدایہ والنہایہ) اللہ تعالیٰ سے اس کی اور نیک لوگوں کی محبت مانگنی چاہیے : (عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ (رض) قَالَ احْتُبِسَ عَنَّا رَسُول اللَّہِ (ﷺ)۔۔ أَسْأَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُحِبُّکَ وَحُبَّ عَمَلٍ یُقَرِّبُ إِلَی حُبِّکَ )[ رواہ الترمذی : کتاب تفسیر القرآن عن رسول اللہ، باب ومن سورۃ ص ] ” حضرت معاذ بن جبل (رض) سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ﷺ) ہمارے پاس آنے سے رک گئے۔۔ اے اللہ میں تم سے تیری محبت کا سوال کرتا ہوں اور اس کی محبت جو تم سے محبت رکھتا ہے اور ایسے عمل کی محبت جو مجھے تمھاری محبت کے قریب کر دے۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کو کسی کی کوئی پروا نہیں ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ایسے مسلمانوں کو پسند فرماتا ہے جو آپس میں نرم اور کافروں پر سخت ہوں۔ 3۔ مومن اللہ کے راستہ میں جہاد کرتے ہیں۔ 4۔ مومن کسی کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جس کو چاہتا ہے نوازتا ہے۔