إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِن قَبْلِ أَن تَقْدِرُوا عَلَيْهِمْ ۖ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
مگر وہ لوگ جو تمہاری گرفت میں آنے سے پہلے توبہ کرلیں، تو جان لو کہ اللہ بڑٓ مغفرت کرنے والا، بڑا مہربان ہے
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اسلامی سزاؤں کا فلسفہ یہ ہے کہ جرائم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ مگر صرف سزا کا نفاذ ہی اصلاح کا ذریعہ نہیں ہوا کرتا اگر مجرموں کو سزا پر سزا دی جاتی رہے تو بسا اوقات وہ قومی مجرم اور پیشہ ور لٹیرے ثابت ہوتے ہیں۔ اس لیے اسلام نے دوسرے جرائم کی طرح سنگین جرائم کے مرتکب افراد کے لیے بھی توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔ لیکن اس کی ایک بڑی شرط یہ ہے کہ وہ انتظامیہ کی پکڑ میں آنے اور عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہونے سے پہلے تائب ہوجائیں۔ اس میں بھی کچھ صورتوں کو ناقابل معافی قرار دیا گیا ہے۔ اگر ایسے شخص نے کوئی قتل کیا ہے تو اسے قتل کے بدلے میں قتل کیا جائے گا۔ اس نے کسی کا مال لوٹا ہو تو اس سے واپس لے کر اس کے مالک کو دلوانا حکومت کی ذمہ داری ہوگی۔ یہ طریقۂ کار فوج داری اور دیوانی مقدمات میں ہوگا۔ اخلاقی مقدمات مثلاً زنا کاری کے مقدمہ میں نہ بدلہ ہے اور نہ ہی شہادتیں قائم ہونے کے بعد عدالت معافی دے سکتی ہے۔ توبہ کا دروازہ کھولتے ہوئے اعلان فرمایا ہے کہ اگر یہ لوگ آئندہ کے لیے سچے دل سے توبہ کرلیں تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور نہایت ہی مہربانی کرنے والا ہے۔ اگر یہ لوگ اسلامی سزا کے بعد یا عدالت میں پہنچنے سے پہلے اخلاص کے ساتھ توبہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ انھیں معاف فرما دے گا۔ (عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ أَبِیہِ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) التَّائِبُ مِنْ الذَّنْبِ کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَہُ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الزہد، باب ذکر التوبۃ] ” حضرت ابوعبیدہ بن عبداللہ (رض) اپنے والد سے بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا گناہوں سے توبہ کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو“ (عَنْ أَبِی مُوسَی (رض) عَنْ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ یَبْسُطُ یَدَہُ باللَّیْلِ لِیَتُوبَ مُسِیء النَّہَارِ وَیَبْسُطُ یَدَہُ بالنَّہَارِ لِیَتُوبَ مُسِیء اللَّیْلِ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِہَا )[ رواہ مسلم : کتاب التوبہ، باب قبول التوبۃ من الذنوب] ” حضرت ابو موسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ رات کو اپنا دست رحمت پھیلاتا ہے تاکہ دن بھر کا گنہگار توبہ کرلے اور دن کو دست شفقت بڑھاتا ہے تاکہ رات بھر کا گنہگار توبہ کرلے، سورج کے مغرب سے نکلنے یعنی قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔“ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ إِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ لَیَقْبَلُ تَوْبَۃَ الْعَبْدِ مَا لَمْ یُغَرْغِرْ ) [ رواہ ابن ماجۃ: باب ذِکْرِ التَّوْبَۃِ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ اللہ بندے کی توبہ کو قبول فرماتا ہے جب تک اس کا سانس حلق میں نہیں اٹک جاتا۔“ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) کُلُّ بَنِی آدَمَ خَطَّاءٌ وَخَیْرُ الْخَطَّاءِیْنَ التَّوَّابُوْنَ) [ رواہ ابن ماجۃ: باب ذِکْرِ التَّوْبَۃِ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا آدم کا ہر بیٹا خطا کار ہے اور ان میں سے بہتر وہ ہے جو خطا کرنے کے بعد توبہ کرنے والا ہے۔“ مسائل : 1۔ گرفتاری سے پہلے توبہ کرنے والوں کو اللہ معاف فرما دیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ کن لوگوں پر رحم کرتا ہے : 1۔ اللہ کی مہربانی کے بغیر گناہ سے بچنا مشکل ہے۔ (یوسف :53) 2۔ اللہ توبہ کرنے والوں کو اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے بے شک اللہ معاف اور رحم کرتا ہے۔ (التوبۃ:99) 3۔ اللہ توبہ کرنے والوں کو معاف کرنے اور رحم کرنے والا ہے۔ (التوبۃ:27) 4۔ اللہ معاف کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔ (المائدۃ:74) 5۔ جو سچے دل سے تائب ہوجائے ایمان کے ساتھ اعمال صالح کرتا رہے تو اللہ تعالیٰ اس کی برائیوں کو نیکیوں میں بدل دے گا کیونکہ اللہ معاف کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔ (الفرقان :70) 6۔ گناہ گار کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ہے۔ (الزمر :53)