سورة المآئدہ - آیت 32

مِنْ أَجْلِ ذَٰلِكَ كَتَبْنَا عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ۚ وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم بَعْدَ ذَٰلِكَ فِي الْأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل کے بارے میں یہ حکم جاری کردیا کہ جو شخص کسی آدمی (45) کو بغیر کسی مقتول کے بدلے، یا زمین میں فساد پھیلانے کے قتل کر ڈالے گا تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا، اور جو شخص کسی آدمی کو بچا لے گا تو گویا اس نے تمام لوگوں کو بچا لیا، اور ہمارے بہت سے انبیاء و رسل بنی اسرائیل کے پاس کھلی نشانیاں (46) لے کر آئے، لیکن اس کے بعد بھی ان میں سے بہت سے زمین میں حد سے تجاوز کرنے والے ہی رہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ عربی گرائمر میں ” مَنْ“ کا لفظ سبب کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اس کے دو مفہوم ہیں یہ قانون روز آفرنیش سے ہی لاگو کیا گیا تھا۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اسی وجہ سے یعنی قتل و غارت کو روکنے کے لیے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ قانون نافذ کیا کہ اگر کسی شخص نے دوسرے کو ناحق قتل کیا تو قاتل کو اس کے بدلے میں قتل کردیا جائے۔ اور یہی سزا قتل و غارت کرنے والوں کی ہوگی۔ کیونکہ جس نے ایک جان کو قتل کیا گویا کہ وہ پوری انسانیت کا قاتل ٹھہرا۔ جس نے کسی ایک کی جان بچائی اس نے پوری انسانیت کا تحفظ کیا۔ دین اسلام سے بڑھ کر دنیا میں کوئی مذہب اور قانون انسان کو تحفظ نہیں دے سکتا۔ قانون سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے پے درپے انبیاء مبعوث فرمائے۔ تاکہ لوگوں کی اخلاقی تربیت فرمائیں کہ لوگ قتل و غارت اور دنگا فساد کرنے سے اجتناب کریں لیکن اس کے باوجود لوگوں کی اکثریت آپس میں زیادتی کرنے والی ہے۔ (عن عَبْدِ اللّٰہِ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ قَالَ سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ وَقِتَالُہُ کُفْرٌ)[ رواہ البخاری : کتاب الایمان، باب خوف المومن من ان یحبط عملہ وہو لا یشعر] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے“ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) عَنِ النَّبِیِّ () قَالَ لَزَوَال الدُّنْیَا أَہْوَنُ عِنْدَ اللَّہِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ ) [ رواہ النسائی : باب تَعْظِیم الدَّمِ] ” حضرت عبداللہ بن عمر و (رض) نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا دنیا کا ختم ہوجانا اللہ کے ہاں ایک مسلمان کے قتل سے کم تر ہے۔“ مسائل : 1۔ ایک انسان کا قاتل ساری انسانیت کا قاتل ہے۔ 2۔ ایک انسان کی زندگی بچانے والا ساری انسانیت کی زندگی بچانے والا ہوتا ہے۔ 3۔ دلائل و براہین کے آجانے کے بعد ظلم و زیادتی نہیں کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : اسراف کرنے والے لوگ : 1۔ جو اسراف کرے اور اللہ کی آیات پر ایمان نہ لائے اسے سزا دی جائے گی۔ (طہ :127) 2۔ فصل کاٹتے وقت اس کا حق ادا کرو اور اسراف نہ کرو۔ (الانعام :142) 3۔ کھاؤ پیو اور اسراف نہ کرو کیونکہ اسراف کرنے والوں کو اللہ دوست نہیں رکھتا۔ (الاعراف :31) 4۔ رحمن کے بندے خرچ کرتے وقت اسراف نہیں کرتے۔ (الفرقان :67) 5۔ اسراف نہ کرو اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والے سے محبت نہیں کرتا۔ (الانعام :141) 6۔ اسراف کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔ ( بنی اسرائیل :27)