فَبَعَثَ اللَّهُ غُرَابًا يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ لِيُرِيَهُ كَيْفَ يُوَارِي سَوْءَةَ أَخِيهِ ۚ قَالَ يَا وَيْلَتَا أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ مِثْلَ هَٰذَا الْغُرَابِ فَأُوَارِيَ سَوْءَةَ أَخِي ۖ فَأَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِينَ
پھر اللہ نے ایک کوا (44) بھیجا جو زمین کو کریدنے لگا، تاکہ اسے سکھائے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چھپائے، اس نے کہا اے افسوس، کیا میں اتنا مجبور ہوں کہ اس کوے کے ہی مانند ہوتا، اور اپنے بھائی کی لاش کو چھپا دیتا، پھر افسوس کرنے لگا
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ دنیا میں سب سے پہلے قتل اور فوت ہونے والا شخص ہابیل تھا اس لیے قابیل کو معلوم نہ تھا کہ میت کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ اس بات کے ساتھ اس کا دوسرا مفہوم بھی ذہن میں رکھنا چاہیے جو واقعہ کے ساتھ گہری نسبت رکھتا ہے جب قاتل کسی شخص کو قتل کرتا ہے تو وہ اپنا جرم چھپانے کے لیے لاش کو آگے پیچھے کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ممکن ہے قابیل اسی کشمکش میں مبتلا ہو گھبراہٹ اور بے قراری کے عالم میں اس کی عقل پر پردہ پڑگیا ہو۔ کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کو کہاں ٹھکانے لگائے جس کی رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک کوّے کے ذریعے یہ کام کروایا۔ ایک کوّے نے دوسرے کوّے کو مار کر اس کی لاش زمین میں دفن کی جب قابیل نے یہ نقشہ دیکھا تو سخت پریشانی کے عالم میں پکار اٹھا ہائے افسوس میں تو کوّے سے بھی کم تر ثابت ہوا۔ بعد ازاں اس نے اپنے بھائی کو زمین میں دفن کیا اسی وقت سے لے کر فطری اور شرعی طریقہ یہی ہے۔ جلانے کی بجائے میّت کو عزت و احترام کے ساتھ دفنانا چاہیے۔ اسلام کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ نہ صرف میت کو دفنانے کا حکم دیتا ہے بلکہ اس کی تعلیم یہ ہے کہ اچھی طرح غسل دینے کے بعد صاف اور اجلا سفید رنگ کا کفن پہنا کر خوشبو لگائی جائے اور نہایت اخلاص کے ساتھ نماز جنازہ پڑھ کر، دفنانے کے بعد قبر پر کھڑے ہو کر دعا کی جائے اور میّت کے لیے ایصال ثواب کا اہتمام بھی کیا جانا چاہیے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَۃٍ إِلَّا مِنْ صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ أَوْ عِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِہٖ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُو لَہُ) [ رواہ مسلم : کتاب الوصیہ، بَاب مَا یَلْحَقُ الْإِنْسَانَ مِنْ الثَّوَابِ بَعْدَ وَفَاتِہِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جب انسان فوت ہوجاتا ہے تو اس کے اعمال منقطع کردیے جاتے ہیں مگر صرف تین ذرائع سے اسے اجر ملتا رہتا ہے۔ (1) صدقہ جاریہ۔ (2) ایسا علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں۔ (3) نیک اولاد جو اس کے لیے دعائیں کرے۔“ (عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ (رض) أَنَّہُ قَالَ یَا رَسُول اللّٰہِ إِنَّ أُمَّ سَعْدٍ مَاتَتْ فَأَیُّ الصَّدَقَۃِ أَفْضَلُ قَالَ الْمَاءُ قَالَ فَحَفَرَ بِئْرًا وَقَالَ ہَذِہِ لِأُمِّ سَعْدٍ)[ رواہ ابوداؤد : کتاب الزکاہ، بَاب فِی فَضْلِ سَقْیِ الْمَاءِ ] ” حضرت سعد بن عبادہ (رض) نے رسول معظم (ﷺ) سے استفسار کیا اے اللہ کے رسول! ام سعد وفات پا گئی ہیں کون سا صدقہ سب سے افضل ہے آپ نے فرمایا پانی پلانا۔ حضرت سعد نے کنواں کھدوایا اور کہا یہ ام سعد کے لیے ہے۔“ (عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ أَنَّ سَعْدَ بْنَ أَبِی وَقَّاصٍ (رض) قَالَ فِی مَرَضِہِ الَّذِی ہَلَکَ فیہِ الْحَدُوا لِی لَحْدًا وَانْصِبُوا عَلَیَّ اللَّبِنَ نَصْبًا کَمَا صُنِعَ بِرَسُول اللّٰہِ (ﷺ) [ رواہ مسلم : کتاب الجنائز، باب فی اللحد ونصب اللبن علی المیت] ” عامر بن سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد (رض) نے اپنے مرض الموت کے وقت حکم دیا کہ میرے لیے لحد بنانا اور لحد کے اوپر کچی اینٹیں رکھنا جس طرح رسول اللہ (ﷺ) کے لیے کیا گیا تھا۔“ مسائل: 1۔ میت کو دفنانا چاہیے۔ 2۔ قاتل کف افسوس ملتا رہ جاتا ہے اور ندامت اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ تفسیر بالقرآن : نادم ہونے والے لوگ : 1۔ آدم کا بیٹا کہنے لگا کاش میں اس کوے کی طرح ہوتا کہ اپنے بھائی کی لاش کو چھپا دیتا تو وہ نادم ہونے والوں میں سے ہوگیا۔ (المائدۃ:31) 2۔ قریب ہے اللہ فتح عطا کر دے یا اپنی طرف سے کوئی حکم نازل فرما دے پس یہ اپنے آپ پر نادم ہوں۔ (المائدۃ:52) 3۔ اپنی غلطیوں پر نادم ہونے والے بہت ہی کم ہوتے ہیں۔ (المومنون :40) 4۔ انھوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور وہ نادم ہونے والوں میں سے ہوگئے۔ (الشعراء :157) 5۔ اے ایمان والو ! فاسق کی خبر کی تحقیق کرلیا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھیں اپنے کیے پر نادم ہونا پڑے۔ (الحجرات :6)