لَئِن بَسَطتَ إِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِي مَا أَنَا بِبَاسِطٍ يَدِيَ إِلَيْكَ لِأَقْتُلَكَ ۖ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ
اگر تم مجھے قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھاؤ گے، تو میں تمہیں قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ تمہاری طرف نہیں بڑھاؤں گا، بے شک میں اللہ سے ڈرتا ہوں جو سارے جہان کا پالنہار ہے
فہم القرآن : (آیت 28 سے 29) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ قابیل کے چھوٹے بھائی ہابیل نے جب یقین کرلیا کہ قابیل مجھے قتل کرنے کا مصمّم ارادہ کرچکا ہے تو اس نے بڑے ادب سے کہا کہ اگر آپ مجھے قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھائیں گے تو میں آپ کو قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ آگے نہیں بڑھاؤں گا۔ جس میں یہ احساس دلانا مقصود تھا کہ میں تجھ سے لڑنا نہیں چاہتا۔ لہٰذا تجھے بھی مجھ پر زیادتی نہیں کرنا چاہیے۔ پھر بھی تمہیں اس بات کا احساس نہیں تو یاد رکھنا تیرے گناہ کے ساتھ میرا گناہ بھی تیرے ذمہ ہوگا اس کا معنیٰ یہ نہیں کہ انھوں نے اپنا دفاع نہیں کیا ہوگا بلکہ اپنی جان بچانا، عزت و مال کی حفاظت کرنا، ہر کسی کا فطری حق اور شرعی طور پر ایسا کرنا لازم ہے، ہابیل نے قابیل کو ظلم سے روکنے کے لیے پانچ باتیں کہی تھیں۔ 1۔ اللہ تعالیٰ متقین کی قربانی قبول کرتا ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ تجھے مفاد کے بجائے اخلاص کے ساتھ قربانی پیش کرنا چاہیے تھی۔ 2۔ تیرے ہاتھ بڑھانے کے باوجود میں تیری طرف ہاتھ نہیں بڑھاؤں گا۔ 3۔ میں ظالم بننے کی بجائے مظلوم بننا پسند کروں گا۔ 4۔ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں۔ جس کا معنیٰ یہ ہے کہ تجھے بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ 5۔ اگر تو ظلم سے باز نہ آئے گا تو تیرا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ ( عَنْ سَعِیدِ بْنِ زَیْدٍ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) یَقُولُ مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِہٖ فَہُوَ شَہِیدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُون دینِہٖ فَہُوَ شَہِیدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُونَ دَمِہٖ فَہُوَ شَہِیدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُونَ أَہْلِہٖ فَہُوَ شَہِیدٌ) [ رواہ الترمذی : کتاب الدیات، بَاب مَا جَاء فیمَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِہِ فَہُوَ شَہِیدٌ] ” حضرت سعید بن زید (رض) فرماتے ہیں میں نے رسول معظم (ﷺ) کو فرماتے ہوئے سنا کہ آپ نے فرمایا کہ جو کوئی اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا گیا وہ شہید ہے، جو کوئی اپنے دین کی حفا ظت کرتے ہوئے مارا گیا وہ شہید ہے، جو کوئی اپنی جان کی حفاظت کرتے ہوئے مارا گیا وہ شہید ہے اور جو کوئی اپنے گھروالوں کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے وہ بھی شہید ہے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَال النَّبِیُّ (ﷺ) أَوَّلُ مَا یُقْضٰی بَیْنَ النَّاس بالدِّمَاء) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، بَاب الْقِصَاصِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی مکرم (ﷺ) نے فرمایا قیامت کے دن سب سے پہلے لوگوں کے درمیان خون کا فیصلہ کیا جائے گا“ مسائل : 1۔ کسی پر زیادتی نہیں کرنا چاہیے۔ 3۔ ہر وقت اللہ رب العالمین سے ڈرنا چاہیے۔ 3۔ ظالم کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ 4۔ کسی پر زیادتی کرنے کی وجہ سے اس کے گناہوں کا بھی بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ تفسیر بالقرآن : گناہوں کا انجام : 1۔ قیامت کے دن برے کاموں کی سزا ملے گی۔ (النجم :31) 2۔ جو گناہوں میں گھرارہا وہ جہنم میں داخل ہوگا۔ (البقرۃ:81) 3۔ جہنمی اپنے گناہوں کا اعتراف کریں گے۔ (الملک :11)