يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلَىٰ فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ أَن تَقُولُوا مَا جَاءَنَا مِن بَشِيرٍ وَلَا نَذِيرٍ ۖ فَقَدْ جَاءَكُم بَشِيرٌ وَنَذِيرٌ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اے اہل کتاب ! ایک مدت تک سلسلہ انبیاء کے انقطاع کے بعد ہمارے رسول (39) تمہارے پاس آگئے، جو (ہمارے احکام) تمہارے سامنے صاف صاف بیان کرتے ہیں (تاکہ ایسا نہ ہو کہ) تم کہنے لگو کہ ہمارے پاس تو کوئی خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا آیا ہی نہیں تھا، پس تمہارے پاس ایک خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا آگیا، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ : یہاں اہل کتاب سے مراد یہود و نصاریٰ دونوں ہیں جنھیں بطور نعمت اور احسان کے اس بات کی یاد دہانی کروائی جا رہی ہے کہ اے اہل کتاب اپنے ماضی کو ذرا جھانک کر دیکھو۔ جب تم مایوس ہو کر کہا کرتے تھے اب ہماری رہنمائی کے لیے قیامت تک کوئی پیغمبر (ﷺ) مبعوث نہیں کیا جائے گا۔ اہل کتاب بالخصوص یہودیوں نے انبیاء (علیہ السلام) پر جو مظالم ڈھائے اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایک عرصہ تک ان میں انبیائے کرام کی بعثت کا سلسلہ منقطع کردیا ﴿ فترۃ﴾ کا معنی ہوتا ہے تسلسل کو روکنا یا ایک خاص مدت کے لیے کسی کام میں وقفہ پیدا کرنا۔ اس سے مراد عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد کی مدت اور وقفہ ہے کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) سے لے کر عیسیٰ (علیہ السلام) تک تقریباً سترہ سو سال میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل میں مسلسل انبیاء مبعوث فرمائے جن میں نہ صرف انبیاء تھے بلکہ ایسے انبیاء بھی مبعوث کیے گئے جو اپنے وقت کے حکمران بھی تھے لیکن عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد تقریباً چھ سو سال تک کوئی نبی مبعوث نہیں کیا گیا تاآنکہ نبی آخر الزمان جناب محمد رسول اللہ (ﷺ) کو بشیر و نذیر بنا کر بھیجا گیا۔ آپ کی آمد سے پہلے بنی اسرائیل مایوس ہو کر کہتے تھے کہ اب ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا نہیں آئے گا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر کرم فرماتے ہوئے ایسا رسول بھیجا جو تمام انبیاء کے اوصاف کا مرقع اور ان کی شریعتوں کا ترجمان ہے۔ لہٰذا اے بنی اسرائیل اور دنیا کے لوگو! تمہیں بنی اسماعیل کے محمد عربی (ﷺ) کو آخری رسول مان لینا چاہیے۔ اس کی اتباع میں تمہاری بہتری اور نجات ہے۔ اگر تم انکار کرتے ہو تو اللہ تعالیٰ کو تمھارے کفر و شرک سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر بات پر قادر ہے۔ (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَنْصَارِیِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ)۔۔ وَبُعِثْتُ إِلٰی کُلِّ أَحْمَرَ وَأَسْوَدَ)[ رواہ مسلم : کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ] ” حضرت جابر بن عبداللہ انصاری (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا میں ہر سرخ وسیاہ کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں۔“ مسائل : 1۔ نبی معظم (ﷺ) جنت کی خوشخبری سنایا کرتے تھے۔ 2۔ رسول اکر م (ﷺ) دوزخ کے عذاب سے ڈرایا کرتے تھے۔ 3۔ نبی اکرم (ﷺ) اتمام حجت کے لیے مبعوث کیے گئے۔ 4۔ نبی اکرم (ﷺ) نے کھول کھول کر حقائق بیان فرما دیے۔ تفسیر بالقرآن : نبی بشیر اور نذیر ہوتا ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ (البقرۃ:119) 2۔ اے اہل کتاب تمہارے پاس ہمارا رسول آیا ہے تاکہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہمارے پاس کوئی خوشخبری دینے اور ڈرانے والا نہیں آیا۔ (المائدۃ:19) 3۔ نبی آخر الزمان (ﷺ) ڈرانے اور بشارت دینے والے ہیں۔ (الاعراف :188) 4۔ آپ کا اعلان بے شک میں اللہ کی طرف سے تمہیں ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں۔ (ھود :2) 5۔ اے نبی ہم نے تجھے بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ (بنی اسرائیل :105) 6۔ اے نبی ہم نے آپ کو سب لوگوں کے لیے بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ (سبا :28)