فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً ۖ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ ۙ وَنَسُوا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوا بِهِ ۚ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىٰ خَائِنَةٍ مِّنْهُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
پھر جب انہوں نے بد عہدی (34) کی تو ہم نے ان پر لعنت بھیج دی، اور ان کے دلوں کو سخت بنا دیا، چنانچہ وہ (اللہ کے) کلام میں لفظی (اور معنوی) تحریف پیدا کرنے لگے، اور جن باتوں کی انہیں نصیحت کی گئی تھی ان کا ایک بڑا حصہ فراموش کر بیٹھے، اور ان میں سے چند کے علاوہ آپ کو ہمیشہ ہی ان کی کسی نہ کسی خیانت کی اطلاع ہوتی رہے گی، پس آپ انہیں معاف کردیجئے، اور درگذر کردیجئے، بے شک اللہ احسان اور بھلائی کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے
فہم القرآن : ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ بار بار عہد لینے، اور بارہ نگران مقرر کرنے کے باوجود بنی اسرائیل کو جو نہی کچھ ڈھیل حاصل ہوتی تو یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد کی ایک ایک شق کو نہ صرف ٹھکراتے بلکہ اس کے مفہوم کو بدل دیتے یہاں تک کہ الفاظ بھی تبدیل کرکے ہر نصیحت اور سرزنش کو فراموش کردیتے۔ جس کا بنیادی سبب ان کی مسلسل نافرمانیوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر پڑنے والی لعنت اور پھٹکار تھی۔ لعنت کا معنی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور اور محروم ہونا ہے۔ جو شخص یا قوم اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہوجائے ان کے دل سخت ہوجاتے ہیں۔ جس کے سبب اپنے آپ کو بدلنے کی بجائے وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کو بدلنے کے درپے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی یہ عادت خبیثہ اور فطرت ثانیہ بن جاتی ہے، جس وجہ سے ان کی اکثریت ہر قسم کی خیانت کو جائز سمجھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل یہود کی تاریخ عہد شکنی، مالی اور اخلاقی خیانت سے بھرپور ہے۔ یہاں پھر اس بات کی وضاحت کردی گئی کہ ان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو خیانت کے حوالے سے مستثنیٰ قرار دیے جا سکتے ہیں۔ آیت کے آخر میں نبی (ﷺ) کو یہ تعلیم دی گئی ہے اے نبی (ﷺ) آپ ان سے الجھنے کی بجائے معاف کریں یا درگزر فرمائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنْ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِیئَۃً نُکِتَتْ فِی قَلْبِہٖ نُکْتَۃٌ سَوْدَاءُ فَإِذَا ہُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُہُ وَإِنْ عَاد زیدَ فیہَا حَتَّی تَعْلُوَ قَلْبَہُ وَہُوَ الرَّانُ الَّذِی ذَکَرَ اللّٰہُ ﴿کَلَّا بَلْ رَانَ عَلَی قُلُوبِہِمْ مَا کَانُوا یَکْسِبُونَ﴾ قَالَ ہَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ )[ رواہ الترمذی : کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ ویل للمطفین] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول معظم (ﷺ) کا فرمان بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا بلاشبہ جب بندہ ایک غلطی کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نکتہ لگا دیا جاتا ہے جب وہ توبہ استغفار کرتا ہے تو اس کا دل صاف کردیا جاتا ہے اور اگر وہ اس غلطی کا اعادہ کرتے ہوئے مزید گناہ کرے تو اس سیاہ نکتے میں اضافہ کردیا جاتا ہے حتیٰ کہ وہ پورے دل کو لپیٹ میں لے لیتا ہے اور وہ زنگ ہے جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے : ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی وجہ سے زنگ لگا دیا گیا ہے۔“ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (ﷺ) یَقُولُ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ یُنْصَبُ لِغَدْرَتِہِ) [ رواہ البخاری : باب إِثْمِ الْغَادِرِ لِلْبَرِّ وَالْفَاجِرِ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی (ﷺ) سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ ہر بد عہد کے لیے جھنڈا ہوگا جو اس کی بد عہدی کے مطابق نمایاں ہوگا۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ وعدہ پورا نہ کرنے والوں پر لعنت کرتا ہے۔ 2۔ وعدہ پورا نہ کرنے کی و جہ سے دل سخت ہوجاتے ہیں۔ 3۔ نیکی کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : یہودیوں پر لعنت کے اسباب : 1۔ اللہ تعالیٰ کے کلام کو بدلنے کی وجہ سے یہودیوں پر لعنت کی گئی۔ (النساء :46) 2۔ بنی اسرائیل کی ایک جماعت کے کفر کی وجہ سے حضرت داؤد اور عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے لعنت کی۔ (المائدۃ:78) 3۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے ہوئے میثاق کو توڑنے پر لعنت ہوئی۔ (الرعد :25) 4۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کو چھپانے کی وجہ سے لعنت کی گئی۔ (البقرۃ:159) 5۔ اللہ تعالیٰ پر الزام لگانے کی وجہ سے ان پر لعنت ہوئی۔ (ھود :18)