سورة المآئدہ - آیت 7

وَاذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمِيثَاقَهُ الَّذِي وَاثَقَكُم بِهِ إِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اللہ نے تمہیں جو نعمت (28) دی ہے، اسے یاد کرو، اور اس عہد و پیمان کو یاد کرو جو اس نے تم سے لیا ہے، جب تم نے کہا تھا کہ (اے اللہ !) ہم نے سنا اور تیری اطاعت کی، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ سینوں میں چھپی باتوں کو جانتا ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : دین اسلام کی تکمیل، حلال چیزوں کی فہرست میں وسعت و کشادگی، پاکیزگی کے احکامات، نعمتوں کی یاد دہانی کے بعد وہ عہد یاد کروایا ہے جو انسانیت نے اللہ تعالیٰ کی جناب میں اپنی تخلیق کے وقت کیا تھا، کلمۂ طیبہ اس عہد کی تائید ہے کیونکہ انسان اس میں یہ اقرار کرتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو اس کی عبادت اور اس کے حکم میں شریک نہیں کروں گا۔ وہی عبادت کے لائق اور احکم الحاکمین ہے بندہ اس میں یہ بھی اقرار کرتا ہے کہ میرے قائد اور پیشوا حضرت محمد (ﷺ) ہیں۔ میں انہی کے فرمان اور طریقہ کے مطابق اللہ تعالیٰ کی عبادت اور زندگی کے تمام معاملات طے کرتا رہوں گا۔ مفسرین نے اس عہد سے مرادصحابہ کا صلح حدیبیہ کا عہد بھی لیا ہے۔ انسان جو بھی اللہ تعالیٰ سے عہد کرتا ہے اسے ہر حال میں پورا کرنا اور اس پر سختی کے ساتھ کاربندرہنا چاہیے۔ عہد کی پاسداری کے لیے یہاں دو چیزیں بیان کی گئی ہیں ایک اللہ تعالیٰ کا خوف اس کے بغیر صحیح معنوں میں نہ آدمی صالح کردار ہوسکتا ہے اور نہ ہی کسی عہد کی پاسداری کرسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ فرمایا یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ دلوں میں پیدا ہونے والے خیالات سے پوری طرح واقف ہے جس کا معنی یہ ہے کہ تمہارا ظاہر اور باطن ایسا ہونا چاہیے کہ جس پر خدا خوفی کے اثرات نمایاں طور پر دکھائی دیں۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد رکھنے والا اور اس کا تقوٰی اختیار کرنے والا ہی اپنے عہد کی پاسداری کیا کرتا ہے۔ (عَنْ عُبَادَۃَ بْنَ الصَّامِتِ (رض) یَقُولُ قَالَ لَنَا رَسُول اللّٰہِ () وَنَحْنُ فِی مَجْلِسٍ تُبَایِعُونِی عَلٰی أَنْ لَا تُشْرِکُوا باللّٰہِ شَیْئًا وَلَا تَسْرِقُوا وَلَا تَزْنُوا وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَکُمْ وَلَا تَأْتُوا بِبُہْتَانٍ تَفْتَرُونَہُ بَیْنَ أَیْدِیکُمْ وَأَرْجُلِکُمْ وَلَا تَعْصُوا فِی مَعْرُوفٍ فَمَنْ وَفٰی مِنْکُمْ فَأَجْرُہُ عَلَی اللّٰہِ وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا فَعُوقِبَ فِی الدُّنْیَا فَہُوَ کَفَّارَۃٌ لَہُ وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا فَسَتَرَہُ اللّٰہُ فَأَمْرُہُ إِلَی اللّٰہِ إِنْ شَاءَ عَاقَبَہُ وَإِنْ شَاءَ عَفَا عَنْہُ فَبَایَعْنَاہُ عَلٰی ذٰلِکَ)[ رواہ البخاری : باب بَیْعَۃِ النِّسَاءِ] ” حضرت عبادہ بن صامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے ہمیں ایک مجلس کے دوران فرمایا کہ تم ان باتوں پر میری بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور نہ تم چوری اور نہ ہی زنا کرو۔ اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرو اور تم کسی پر من گھڑت بہتان نہ باندھو۔ اور نہ ہی نیکی کے کاموں میں نافرمانی کرو۔ جس نے اس بیعت کی پاسداری کی اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمّہ ہے جس کسی نے ان باتوں کا ارتکاب کیا اللہ تعالیٰ اس کو دنیا میں سزا دے گا جو اس کے لیے کفارہ ہوگا۔ جس نے ان گناہوں کا ارتکاب کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہوں پر پردہ ڈال دیا تو اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے چاہے سزا دے اور چاہے تو اس سے درگزر فرمائے۔ ہم سب نے اس پر بیعت کی۔“ جب رسول محترم گفتگو فرماتے تو وہ خاموشی کے ساتھ سنتے۔ اور تعظیم کی بنا پر آپ کی طرف نظر اٹھا کر نہ بات کرتے۔ مکے والوں کا نمائندہ عروہ بن مسعود اپنے ساتھیوں کی طرف پلٹا تو کہا اے میری قوم میں وفود کے ساتھ بادشاہوں کے پاس گیا۔ مجھے قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے دربار میں بھی جانے کا موقع ملا مگر اللہ کی قسم جتنی عزت و تعظیم محمد (ﷺ) کے ساتھی اس کی کرتے ہیں کسی بادشاہ کی رعایا اتنی تعظیم اس کی نہیں کرتی۔ اللہ کی قسم وہ تھوک نہیں پھینکتے مگر وہ اس کے ساتھیوں کے ہتھیلیوں میں گرتی ہے اور وہ اسے اپنے چہروں اور جسم کے ساتھ مل لیتے اور جب وہ کسی کام کا حکم دیتے ہیں تو وہ اس کی تعمیل میں جلدی کرتے ہیں اور جب وہ وضو کرتے ہیں تو قریب ہے کہ اس کے ساتھی اس کے وضو کے پانی پر لڑ پڑیں اور جب وہ کلام کرتا ہے تو وہ اپنی آوازوں کو پست کرلیتے ہیں اور آپ کی طرف آپ کی عظمت کی وجہ سے نگاہ نہیں اٹھاتے اور تحقیق اس نے تمھارے سامنے ایک عظیم چیز پیش کی ہے اسے قبول کرلو۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہر وقت یاد رکھنی چاہییں۔ 2۔ وعدوں کی پاسداری کرنی چاہیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید جانتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : تقویٰ کیا ہے ؟ 1۔ جنگ اور مصیبتوں میں صبر اختیار کرنا سچ بولنا تقوٰی ہے۔ (البقرۃ:177) 2۔ حلال روزی کھانا، اللہ پر ایمان لانا اور اس سے ڈرنا تقوٰی ہے۔ (المائدۃ:88) 3۔ اپنے اہل و عیال کو نماز کا حکم دینا اور اس پر قائم رہنا تقوٰی ہے۔ (طٰہٰ:132) 4۔ شعائر اللہ کا احترام کرنا تقویٰ ہے۔ (الحج :32) 5۔ حج کے سفر میں زاد راہ لینا تقوٰی ہے۔ (البقرۃ:197)