يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَائِدَ وَلَا آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّن رَّبِّهِمْ وَرِضْوَانًا ۚ وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا ۚ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَن صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَن تَعْتَدُوا ۘ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
اے ایمان والو ! (اللہ کی مقرر کردہ) نشانیوں (4) کو حلال نہ بناؤ، اور نہ حرمت والے مہینے کو، اور نہ قربانی کے اس جانور کو جسے کعبہ کی طرف لے جایا جا رہا ہو، اور نہ ان جانوروں کو جن کی گردن میں پٹے ڈال کر کعبہ کی طرف لے جایا جا رہا ہو، (اور نہ حلال بناؤ) بیت حرام کی طرف آنے والوں کو جن کا مقصد اپنے رب کا فضل اور اس کی خوشنودی حاصل کرنا ہوتا ہے، اور جب تم احرام کھول دو (5) تو شکار کرو، اور کسی قوم کی تم سے دشمنی (6) کہ انہوں نے تمہیں مسجد حرام سے روک دیا تھا، اس پر نہ ابھارے کہ ان پر زیادتی کرو، اور نیکی اور تقوی کے کاموں میں آپس میں تعاون (7) کرو، اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کا ساتھ نہ دو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ سخت سزا دینے والا ہے
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ : پہلے بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ حرمت و حلت کے سلسلہ میں انسان حد سے زیادہ حساس واقع ہوا ہے۔ اس لیے پھر ﴿یَاَیّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ کے خطاب سے حرمت و حلت کے مسائل کی تفسیر بیان کی جار ہی ہے۔ جس کا مفہوم یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ اے ایمان کا دعوی کرنے والو۔ اپنے ایمان کو تازہ اور پختہ کرو اور حرمتوں کا احترام کرو حرمتوں کے لیے ﴿ شعائر اللّٰہ﴾ کا لفظ استعمال کیا تاکہ ان کی اہمیت کا مزید احساس پیدا ہو شعائر ” شعیر ۃ“ کی جمع ہے۔ جس کا معنی ہے کہ دین کی ایسی علامت جس سے دین یا اس کے کسی رکن کی شناخت اور تکریم واضح ہوتی ہو۔ شعائر اللہ میں سے چار کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ بعض اہل علم نے شعائر میں کسی قوم یا ملک کی اس نشانی کو بھی شامل کیا ہے جس سے کسی قوم کی قومی اور مذہبی شناخت ہوتی ہے۔ جیسا کہ قومی پرچم اور مخصوص قومی لباس ہے۔ انھیں قومی شعائر تو کہا جا سکتا ہے لیکن یہ چیزیں شعائر اللہ کا مقام حاصل نہیں کرسکتیں۔ 1۔ حرمت والے مہینے۔ ذیقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب، یہ مہینے اس وقت سے محترم قرار پائے ہیں۔ جب سے اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا ہے۔ (التوبۃ :36) مفسرین نے ان کی یہ حکمت بیان کی ہے کہ ان مہینوں میں لوگ حج کرنے کے لیے بیت اللہ آیا کرتے تھے۔ اس لیے ابتدائے آفرینش سے انھیں محترم قرار دیا گیا تاکہ دور دراز سے آنے جانے والے زائرین کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ ان میں تین مہینے تو متواتر ہیں جبکہ چوتھا مہینہ رجب ہے جو رمضان المبارک سے دو مہینے پہلے آتا ہے اس کو اس لیے محترم ٹھہرایا گیا کہ قدیم زمانے سے لوگ اس میں بیت اللہ کی زیارت اور عمرہ کے لیے آیا کرتے تھے۔ (2) (الھدی) اس سے مراد وہ جانور ہے جس کو بیت اللہ میں قربانی کے لیے نامزد کیا گیا ہو۔ (3) (القلآئد) اس سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو بیت اللہ بھیجے جانیوالے جانوروں کے گلے میں ڈالی جاتی تھیں۔ یہ پرانی جوتی، دھاگہ یا اس کے جسم پر ہلکی سی خراش دے کر اس کے بالوں پر خون لگا دیا جاتا تھا تاکہ معلوم ہو کہ یہ جانور اللہ کے لیے قربانی کرنے کے لیے رکھا گیا ہے۔ (4) زائرین حرم۔ یہ لوگ اللہ کی راہ کے مسافر، اس کے گھر کے مہمان اور اس کے فضل و کرم کے طلبگار ہوتے ہیں اس لیے ان کا احترام و اکرام کرنا بھی واجب قرار دیا گیا ہے۔ احرام کی حالت میں شکار کھیلنے پر پابندی تھی اب اس کی اجازت عنایت فرمائی کہ جب تم احرام کھول دو تو شکار کرنے کی اجازت ہے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر نبی (ﷺ) اور آپ کے صحابہ کو کفار نے مکہ داخل ہونے سے روک دیا تھا۔ جو عربوں کی دینی اور ملّی روایات کے خلاف تھا۔ خطرہ تھا کہ صحابہ کرام اس حالت میں مدینہ واپس لوٹیں گے تو مدینہ کے راستے سے بیت اللہ کی زیارت کرنے والے کفار کو اس طرح روکنے کی کوشش کریں۔ جس طرح صحابہ کو روکا گیا تھا لہٰذا سختی کے ساتھ منع کردیا گیا کہ کسی قوم کا رد عمل بیت اللہ کی طرف آنے والے مسافروں کے لیے رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں یہ مسلمانوں کی شان کے منافی ہے کہ وہ کفار جیسا وطیرہ اختیار کریں۔ مسلمان کی شان اور کردار یہ ہونا چاہیے کہ وہ ہر نیکی اور تقوٰی کے کام میں تعاون کرے۔ چاہے نیکی کرنے والا مسلمان کا مخالف ہی کیوں نہ ہو۔ مسلمانوں کو ظلم اور گناہ کی معاونت ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔ بے شک ظلم اور گناہ کرنے والے ان کے عزیز و اقرباء کیوں نہ ہوں۔ مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ وہ اللہ سے ڈرتے ہوئے نیکی اور تقوٰی کے کام میں تعاون کرے بصورت دیگر۔ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ سخت پکڑنے والا ہے۔ الا یہ کہ نیکی اور تقوٰی کا نام لے کر کوئی شخص اس کے پس منظر میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کسی سازش کا ارتکاب کرے تو بظاہر نیکی ہونے کے باوجود ایسے آدمی سے تعاون نہیں کرنا چاہیے۔ اس لیے حضرت علی (رض) نے خارجیوں سے یہ کہہ کر عدم تعاون کا اعلان کیا تھا کہ یہ لوگ نیکی کے پردے میں باطل کی تائید کر رہے ہیں۔ (کَلِمَۃَ حَقٍ اَرِیْدَ بِہْ الْبَاطِلَ) [ البدایہ والنہایہ] مسائل : 1۔ اللہ کی نشانیوں (مناسک حج وغیرہ) کی بے حرمتی کرنا جائز نہیں۔ 2۔ عازمین حج کا احترام کرنا لازم ہے۔ 3۔ باہمی رنجش کی وجہ سے کسی کو بیت الحرام سے روکناجائز نہیں۔ 4۔ نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔ 5۔ گناہ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہیے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ کا فضل : 1۔ انسان کا خسارے سے بچنا اللہ کے فضل کا نتیجہ ہے۔ (البقرۃ:64) 2۔ اللہ تعالیٰ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے۔ (البقرۃ:243) 3۔ اللہ جس پر چاہتا ہے اپنا فضل کرتا ہے۔ (آل عمران :74) 4۔ اللہ مومنوں پر اپنا فضل کرتا ہے۔ (آل عمران :152) 5۔ اللہ کے فضل کے بغیر آدمی شیطان کا غلام بن جاتا ہے۔ (النساء :83) 6۔ مومنوں کو اللہ تعالیٰ کے فضل پر خوش ہونا چاہیے۔ (یونس :58)