بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان، بے حد رحم کرنے والا ہے
سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر 5کے سو ا باقی تمام آیات مدینہ طیبہ اور اس کے گرد ونواح میں نازل ہوئی ہیں۔ جس بنا پر اس سورت مبارکہ کو مدنی کہا جاتا ہے۔ اس کی آیات ایک سو بیس (120) رکوع سولہ (16) اور اس کے حروف بارہ ہزار چار سو چونسٹھ ہیں۔ اس کا نام آیت 114کی بنا پر رکھا گیا ہے جس کا معنی ہے دستر خوان کیونکہ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے آسمان سے دستر خوان نازل ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔ سورت کے نزول کا آغاز صلح حدیبیہ کے زمانہ میں ہوا اور اس کی تکمیل حجۃ الوداع کے موقعہ پر میدان عرفات میں ہوئی۔ اس میں دوٹوک انداز میں اعلان ہوا ہے کہ اے مسلمانوں ! آج کے بعد کفار تمہارے دین سے قطعی طور پر مایوس ہوچکے ہیں کیونکہ انہیں پوری طرح باور ہوچکا ہے کہ اس دین (جن کفار کو پوری طرح باور ہوگیا کہ ” اسلام“ دین حق ہے وہ اسے قبول کرکے مسلمان ہوگئے) کو مٹانا کسی کے بس کا روگ نہیں دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مخاطب فرمایا کہ اب تمہارے دشمن کا زور ٹوٹ چکا ہے ان کی ہر سازش اور شرارت ناکام ہوئی اور انہیں ہر محاذ پر منہ کی کھانی پڑی لہٰذا اب دین اسلام کے غلبہ اور تمہارے عروج کا دور ہے کہیں ایسانہ ہو کہ تم اقتدار اور اختیار کے نشہ میں آکر دین اسلام کی اخلاقی اقدار کو پامال کرو۔ تمہیں حکم دیا جاتا ہے کہ ہر قسم کے عہدکی پاسداری کرنا چاہے وہ ایمان کی صورت میں اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ ہو یا ایک فرد یا قوم کا دوسرے فرد اور قوم کے ساتھ ہو۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ عہد کی پاسداری کا تقاضا ہے کہ اس کے حلال کو حلال سمجھو اور اس کی حرام کردہ چیزوں کو حرام جانو۔ کسی قوم کی دشمنی تمہیں شریعت کی حدود اور اخلاقی قدروں کو پامال کرنے پر آمادہ نہ کرپائے۔ اس کے بعد تیسرے رکوع میں بنی اسرائیل سے لیے گے عہد کا تذکرہ کیا تاکہ مسلمانوں کو معلوم ہو کہ دین کے بنیادی تقاضے ہمیشہ ایک رہے ہیں جو بندے کا اللہ تعالیٰ سے عہد کرنے کے مترادف ہے۔ اس کے بعد یہود ونصارٰی کے اس دعوے کی تردید کی گئی ہے کہ جو وہ لوگوں پر اپنا تقدس قائم کرنے کے لیے کرتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے چہیتے ہیں اور عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں۔ اس میں یہ واضح فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد نہیں اور اس کا محب وہی ہوسکتا ہے جو قرآن مجید کی تعلیمات کو تسلیم کرنے اور نبی آخرالزمان (ﷺ) پر ایمان لانے والا ہو۔ اس کے بعد بنی اسرائیل کا جہاد سے انحراف بیان کیا اور آدم (علیہ السلام) کے ایک بیٹے کا اپنے بھائی کے ہاتھوں قتل ہونے کا واقعہ بیان کرنے کے ساتھ دین کے فوجداری قوانین ذکر فرمائے، پھر مسلمانوں کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں شخصیات کو وسیلہ بنانے کی بجائے جہاد فی سبیل اللہ اور تقوٰی کے ذریعے اپنے رب کے قریب ہونے کی کوشش کرو۔ آیت نمبر 56سے لیکر نمبر 66میں یہ بیان کیا کہ یہود ونصارٰی مسلمانوں کے دلی دوست اور کبھی خیرخواہ نہیں ہوسکتے لہٰذا اے رسول مکرم (ﷺ) آپ کو رائے عامہ کے خوف اور یہود ونصارٰی سے ڈرے بغیر رسالت کے پیغام کو من وعن لوگوں تک پہنچانا چاہیے یہ تو وہ لوگ ہیں جن کے باطل عقیدہ اور گھناؤنے کردار کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اور حضرت داؤد (علیہ السلام) سے لے کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک تمام انبیاء نے ان پر لعنت کی ہے حضرت داؤد اور جناب عیسیٰ کا اس لیے ذکر کیا کہ یہودی موسیٰ کے بعد حضرت داؤد (علیہ السلام) اور عیسائی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ محبت کا دعویٰ کرتے ہیں تاہم یہ وضاحت فرمائی کہ عیسائیوں میں ایک فرقہ ایسا ہے کہ جو مسلمانوں کے بارے میں نرم گوشہ رکھتا ہے اور اسی نرمی کی بناء پر ان میں کئی لوگ قرآن مجید سن کر نبی آخرالزمان (ﷺ) پر ایمان لے آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو اپنے فضل وکرم کے ساتھ جنت میں داخل کرے گا۔ آیت نمبر 87تا 108تک قسم کے کفارے کا بیان ہے شراب، جوا، بتوں اور مختلف طریقوں سے اپنی قسمت معلوم کرنے کو ناجائز قرار دیا ہے احرام کی حالت میں خشکی کا شکار کرنا حرام اور بحری سفر میں دریائی شکار کو جائز قرار دیا ہے۔ ان مسائل کے بعدمسلمانوں کو یہ تلقین فرمائی کہ نزول قرآن کے زمانہ میں سوالات کرنے سے اجتناب کرو اور اپنے آباؤ اجدادکی تقلید کرنے کی بجائے رسول کی اتباع کو مقدم جانو اگر تم ایساکرو گے تو تمہارے دشمن تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ سورۃ المائدۃ کے اختتام میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے عظیم الشان معجزات بیان کرتے ہوئے واضح فرمایا کہ اتنے عظیم معجزات ملنے کے باوجودعیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے یہ مطالبہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک دستر خوان نازل ہونا چاہیے تاکہ ہم اس سے کھا کر مطمئن اور لطف اندوز ہوں۔ اس سورت کا اختتام اس بات پر کیا گیا کہ محشر کے میدان میں عیسائیوں کے مشرکا نہ عقیدہ کی وجہ سے حضرت عیسیٰ سے وضاحت طلب کی جائے گی کہ اے عیسیٰ کیا آپ نے عیسائیوں کو یہ عقیدہ پڑھایا اور سمجھا یا تھا کہ وہ مجھے اور میری والدہ کو اللہ کا شریک بنا لیں جس کے جواب میں حضرت عیسیٰ نہایت ہی عاجزانہ انداز میں اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے عرض کریں گے کہ اے مولائے کریم! اگر میں نے یہ بات کہی تو آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں کیونکہ آپ دلوں کے بھید اور سینوں کے راز جاننے والے ہیں۔ اس التجا کے ساتھ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) یہ بھی عرض کریں گے اے رب ذوالجلال ! اگر آپ ان کو عذاب کریں تو یہ تیرے ہی بندے ہیں اگر آپ معا ف فرمادیں تو آپ کو کوئی روکنے والا نہیں کیونکہ آپ فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور آپ کے حکم میں بڑی حکمتیں پنہاں ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ کی در خواست کو یہ کہہ کر مسترد فرما دیں گے کہ آج سچے لوگوں کو ان کی سچائی کا ہی فائدہ پہنچے گا۔ اہل علم نے لکھا ہے کہ یہاں سچائی سے مراد اللہ کی توحید کا عقیدہ ہے جس کے بغیر کوئی نیک سے نیک عمل بھی اللہ کے حضور قبول نہیں ہوگا۔