يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ ۚ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ ۚ وَهُوَ يَرِثُهَا إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ ۚ وَإِن كَانُوا إِخْوَةً رِّجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۗ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَن تَضِلُّوا ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
لوگ آپ سے فتوی پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجئے ” کلالہ“ (161) کے بارے میں اللہ تمہیں فتویٰ دیتا ہ، اگر کوئی آدمی مرجائے جس کی کوئی اولاد نہ ہو، اور اس کی ایک بہن ہو، تو اسے نصف ترکہ ملے گا، اور اگر بہن مرجائے اور اس کی کوئی اولاد نہ ہو، تو وہ بھائی اس کا وارث ہوگا، اگر بہنیں دو ہوں گی تو ان دونوں کو مال کا دو تہائی ملے گا، اگر کئی بھائی بہن ہوں گے تو ہر مرد کو دو عورتوں کے برابر ملے گا، (یہ حکم) اللہ ت عالیٰ تمہارے لیے بیان کردے رہا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہوجاؤ، اور اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے
فہم القرآن : ربط کلام : اس سورۃ کی ابتدا معاشرہ کے پسماندہ طبقہ یعنی یتیموں کے مالی حقوق سے ہوئی تھی اور اس کا اختتام بھی معاشرتی اعتبار سے کمزور افراد کے مالی تحفظ سے کیا گیا ہے۔ سورۃ النساء کی ابتدا میں بنی نوع انسان کو ایک کنبہ قرار دیتے ہوئے یتیموں اور عورتوں کے حقوق کا خیال رکھنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اب اس سورۃ کا اختتام خاندانی لحاظ سے کمزور ترین انسان کے متعلقہ مسائل سے کیا جا رہا ہے۔ جسے قرآن نے کلالہ کے نام سے متعارف کروایا ہے۔ کلالہ کی تعریف : کلالہ وہ شخص ہے جس کے نہ والدین ہوں نہ دادا، دادی اور نہ اولاد اور نہ پوتے پوتیاں، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ بے شک اس کے بہن بھائی ہوں کلالہ ہی تصور ہوگا۔ اخیافی بہن بھائیوں کا حصہ 1/3 ہے۔ اور اگر ایک بہن اور ایک بھائی ہو تو ہر ایک کا 1/6 ہے۔ اور اگر بہن بھائی زیادہ ہوں تو بھی انھیں 1/3 سے زیادہ نہیں ملے گا اور یہ 1/3 ان میں برابر تقسیم ہوگا۔ مرد کو عورت سے دو گنا نہیں ملے گا۔ اور اگر صرف ایک ہی بھائی یا صرف ایک ہی بہن ہو تو اسے 1/6 ملے گا۔ باقی پہلی صورت میں 2/3 اور دوسری صورت میں 5/6 بچ جائے گا۔ کلالہ باقی حصہ کے متعلق وصیت کرسکتا ہے یا پھر یہ حصہ ذوی الارحام میں تقسیم ہوگا بشرطیکہ کوئی عصبہ نہ مل رہا ہو۔ اولاد کی تین قسمیں ہیں : 1۔ عینی : وہ بہن بھائی جو سگے ہوں۔ 2۔ علاتی : جن کا باپ ایک ہو اور مائیں الگ الگ ہوں۔ 3۔ اخیافی : جن کی ماں ایک اور باپ الگ الگ ہو۔ اخیافی بہن بھائیوں کے متعلق احکامات اسی سورت کی آیت نمبر 12میں بیان ہوچکے ہیں۔ جو اس آیت 176میں بیان ہو رہے ہیں یہ حقیقی یا سوتیلے بہن بھائیوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ کلالہ کی میراث کی تقسیم میں دو باتوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ ایک یہ کہ اگر کلالہ کے حقیقی اور سوتیلے دونوں قسم کے بہن بھائی موجود ہوں تو سوتیلے کو محروم رکھا جائے گا۔ اور اگر حقیقی نہ ہوں تو پھر سوتیلے بہن بھائیوں میں جائیداد تقسیم ہوگی۔ دوسرا یہ کہ کلالہ کے بہن بھائیوں میں تقسیم میراث کی بالکل وہی صورت ہوگی جو اولاد کی صورت میں ہوتی ہے۔ یعنی اگر صرف ایک بہن ہو تو اس کو آدھا حصہ ملے گا۔ دو یا دو سے زیادہ بہنیں ہوں تو ان کو دو تہائی ملے گا۔ اگر صرف بھائی ہی ہو تو تمام تر کہ کا واحد وارث ہوگا۔ اگر بہن بھائی ملے جلے ہوں تو ان میں سے ہر مرد کو دو حصے اور ہر عورت کو ایک حصہ ملے گا۔ یہاں یعنی آیت 176میں بہن سے مراد سگی اور باپ کی طرف سے جو بہن ہو اس کا ذکر ہو رہا ہے۔ ایسی بہن کو نصف ترکہ ملے گا اور بقیہ نصف اگر کوئی عصبہ ہو یعنی چچا، چچا زاد بھائی تو ان کو یہ نصف ملے گا ورنہ یہ نصف بھی بہن کی طرف لوٹ آئے گا۔ پھر اگر دو بہنیں ہوں تو ان کو دو تہائی ملے گا اور بقیہ ثلث عصبہ کو ملے گا اور اگر عصبہ کوئی نہ ہو تو یہ بھی ثلث ان کو ملے گا۔ دو یا دو سے زیادہ بہنوں کا یہی حکم ہے۔ اگر کلالہ کے وارثوں میں بھائی اور بہن دونوں ہوں تو بھائی کو دو حصے اور بہن کو ایک حصہ ملے گا۔ مسائل : 1۔ کلالہ کی صرف بہن ہو تو وہ نصف ترکہ کی مالک ہوگی۔ 2۔ اگر کلالہ کی دو بہنیں ہیں تو ان کے لیے دو تہائی ہے۔ 3۔ اگر کلالہ کے بہن بھائی ہوں تو ﴿لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ﴾ کے تحت وراثت تقسیم ہوگی۔