وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ ۚ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا
اور انہوں نے کہا کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسیٰ بن مریم کو قتل کردیا، حالانکہ ان لوگوں نے انہیں قتل نہیں کیا اور نہ سولی پر چرھایا، بلکہ انہیں شبہ میں ڈال دیا گیا، اور بے شک جن لوگوں نے عیسیٰ کے بارے میں اختلاف کیا، وہ ان کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں، وہ لوگ ان کے متعلق سوائے وہم و گمان کی پیروی کے کوئی صحیح علم نہیں رکھتے، اور انہوں نے یقیناً قتل نہیں کیا
فہم القرآن : (آیت 157 سے160) ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح نبی آخر الزماں (ﷺ) کو ارشاد فرمایا کہ میرے رسول بےدھڑک اپنا کام کرتے جائیے ہم آپ کو لوگوں کی سازشوں اور شرارتوں سے محفوظ رکھیں گے۔ اسی طرح ہی اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے وعدہ فرمایا تھا کہ تیرے دشمن جتنی چاہیں سازشیں اور شرارتیں کرلیں وہ تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے کیونکہ میں تجھے تیرے دشمنوں سے بچاؤں گا چنانچہ یہودیوں نے جب عیسیٰ (علیہ السلام) کو تختہ دار پر لٹکانے کی کوشش کی تو جہاں عیسیٰ (علیہ السلام) محصور کیے گئے تھے انہیں لینے کے لیے یہودا نامی شخص اندر گیا جس کے بارے میں قرآن مجید نے اشارہ کیا ہے کہ یہ غدّارجب باہر آیا تو اسے عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہم شکل کردیا گیا۔ قرآن مجید کی اس وضاحت کے باوجود بائبل میں لکھا ہے کہ سولی کے وقت عیسیٰ (علیہ السلام) کے چہرہ پر تھوکا گیا اور انہیں کانٹوں کا ہار پہنا کر بڑی ذلت کے ساتھ تختۂ دار پر لٹکایا گیا اگر ان روایات کو صحیح مان لیا جائے تو اس سے مراد وہ شخص ہے جو آخری وقت تک واویلا کرتا رہا کہ میں عیسیٰ نہیں یہودا ہوں۔ لیکن اس کے باوجود اسے سولی پر لٹکادیا گیا جہاں تک عیسیٰ (علیہ السلام) کی ذات اقدس کا معاملہ ہے اللہ تعالیٰ نے انھیں اس قدر جمال اور جلال بخشا تھا کہ کوئی شخص انکے سامنے ایسی حرکت کرنے کی جرات نہیں کرسکتا تھا اور ہر آڑے و قت میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے جبریل امین (علیہ السلام) انکی مدد کیا کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق انہیں آسمانوں پر اٹھا لیا اور قیامت کے دن حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اہل کتاب کے شرک اور بغاوت کے خلاف شہادت دیں گے۔ لوگوں کے تعجب کو دور کرنے اور نام نہاد دانشوروں کی دانش کو لگام دینے کے لیے ﴿عَزِیْزاً حَکِیْماً ﴾کے الفاظ کے ذریعے وضاحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ انہیں آسمان کی طرف اٹھانے اور ان کے دشمنوں سے بچانے پر قادر ہے اللہ تعالیٰ انھیں آسمان پر اٹھانے اور قیامت کے قریب زمین پر بھیجنے کاراز جانتا ہے لہٰذا عیسیٰ (علیہ السلام) کے رفع آسمانی کے بارے میں اختلاف کرنے والے صرف اٹکل پچوسے کام لے رہے ہیں۔ یہاں یہودیوں کے دعویٰ کی تردید کرتے ہوئے وضاحت فرمائی کہ یقیناً عیسیٰ (علیہ السلام) سولی نہیں چڑھائے گئے۔ مزید ارشاد فرمایا کہ اہل کتاب اپنی موت سے پہلے اس بات پر ایمان لائیں گے یہاں اہل کتاب سے مراد وہ لوگ ہیں جو قرب قیامت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زمین پر آمد اور انکی وفات کے وقت موجود ہوں گے۔ بعض لوگوں نے کچھ اقوال کی بنیاد پر لکھا ہے کہ ﴿قَبْلَ مَوْتِہِ﴾ سے مرادہر مرنے والا عیسائی اور یہودی ہے۔ جب یہودی اور عیسائی کو موت آتی ہے تو اس کے سامنے ایسے قرائن لائے جاتے ہیں جس سے اسے یقین آجاتا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) ابھی زندہ ہیں لیکن اس بات کو کسی ٹھوس دلیل کے ساتھ ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ ﴿قَبْلَ مَوْتِہٖ﴾الفاظ کا حقیقی معنی احادیث کی روشنی میں متعین ہوچکا ہے۔ یہودی عیسیٰ (علیہ السلام) کو سولی پر لٹکانے کا دعویٰ کرتے ہیں ان کی تائید میں عیسائیوں کی اکثریت نے اپنے مفاد کی خاطریہ عقیدہ گھڑ لیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) واقعی ہی فوت ہوچکے ہیں۔ حالانکہ عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت کے قریب دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے۔ یہودیوں کے دلائل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مرزائی کہتے ہیں کہ واقعی عیسیٰ (علیہ السلام) مصلوب ہوچکے ہیں جس عیسیٰ مسیح کے دوبارہ آنے کا حدیث میں ذکر ملتا ہے وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نہیں بلکہ مرزا ہے جو مسیح بن کر آ چکا ہے لہٰذا عیسیٰ (علیہ السلام) دوبارہ نہیں آئیں گے۔ (عنَ أَبَی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنْ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ لَا تَقُوم السَّاعَۃُ حَتّٰی یَنْزِلَ فیکُمْ ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا مُقْسِطًا فَیَکْسِرَ الصَّلِیبَ وَیَقْتُلَ الْخِنْزِیرَ وَیَضَعَ الْجِزْیَۃَ وَیَفِیضَ الْمَالُ حَتّٰی لَا یَقْبَلَہُ أَحَدٌ)[ رواہ البخاری : کتاب ا لمظالمِ، بَاب کَسْرِ الصَّلِیبِ وَقَتْلِ الْخِنْزِیر] حضرت ابوہریرہ (رض) نبی معظم (ﷺ) کا بیان نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) عادل حکمران کی حیثیت سے نہیں آئیں گے وہ صلیب کو توڑدیں گے، خنزیر کو قتل کردیں گے۔ جزیہ ختم کردیں گے۔ مال ودولت کی اس قدربہتات ہوگی کہ صدقہ وخیرات لینے والا نہیں ہوگا۔“ (عن عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَلَامٍ (رض) عَنْ أَبِیہٖ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ مَکْتُوبٌ فِی التَّوْرَاۃِ صِفَۃُ مُحَمَّدٍ وَصِفَۃُ عیسَی ابْنِ مَرْیَمَ یُدْفَنُ مَعَہُ) [ رواہ الترمذی : کتاب المناقب، بَاب فِی فَضْلِ النَّبِیِّ (ﷺ) ] ” حضرت عبداللہ بن سلام (رض) اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ تورات میں حضرت محمد (ﷺ) اور حضرت عیسیٰ ابن مریم ( علیہ السلام) کی صفات لکھی ہوئی ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) حضرت محمد (ﷺ) کے ساتھ دفن ہوں گے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) أَنَا أَوْلَی النَّاسِ بِعِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ، وَالأَنْبِیَاءُ إِخْوَۃٌ لِعَلاَّتٍ، أُمَّہَاتُہُمْ شَتَّی، وَدِینُہُمْ وَاحِدٌ ) [ رواہ البخاری : باب ﴿واذْکُرْ فِی الْکِتَابِ مَرْیَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَہْلِہَا ﴾] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا میں دنیا و آخرت میں عیسیٰ بن مریم کے زیادہ قریب ہوں اور تمام انبیاء (علیہ السلام) علاتی بھائی ہیں ان کی مائیں مختلف ہیں اور دین ایک ہی ہے۔“ مسائل : 1۔ یہودیوں نے عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کو نہ قتل کیا اور نہ ہی انہیں سولی پر لٹکایا۔ 2۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کی موت کے بارے میں لوگ اپنی طرف سے اٹکل پچو لگاتے ہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی طرف اٹھا لیا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ ہر کام کرنے پر غالب اور اس کے ہر کام میں حکمت پنہاں ہوتی ہے۔