الَّذِينَ يَتَرَبَّصُونَ بِكُمْ فَإِن كَانَ لَكُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللَّهِ قَالُوا أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ وَإِن كَانَ لِلْكَافِرِينَ نَصِيبٌ قَالُوا أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُم مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ ۚ فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ وَلَن يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا
جو تمہاری گھات (134) میں لگے رہتے ہیں، پس اگر تمہیں اللہ کی طرف سے فتح ملتی ہے، تو کہتے ہیں کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے، اور اگر کافروں کی کوئی جیت ہوتی ہے، تو (ان سے) کہتے ہیں کیا ہم تم پر غالب نہ تھے، اور مسلمانوں سے تم کو بچایا نہ تھا، پس اللہ تمہارے درمیان قیامت کے دن فیصلہ کرے گا، اور اللہ کافروں کو مسلمانوں پر ہرگز راہ نہیں دے گا
فہم القرآن : ربط کلام : منافق ابن الوقت اور مفاد کا بندہ ہوتا ہے اس لیے کافر اور مسلمان کا ساتھ دینے میں مخلص نہیں ہوتا۔ اپنے مفاد کا غلام ہونے کی وجہ سے وہ اس انتظار میں ہوتا ہے کہ جدھر سے اسے فائدہ پہنچے وہ اس فریق کے ساتھ اپنی رفاقت اور ہمدردی کا اظہار کردے۔ رسول محترم (ﷺ) کے زمانہ کے منافقوں کی یہی حالت تھی۔ غزوۂ احد کے موقع پر مسلمانوں سے الگ ہو کر کفار کی تقویّت کا باعث بنے اور فتح مکہ کے وقت مسلمانوں کی قوت دیکھ کر ان سے وفا کا دم بھرتے رہے۔ جب بھی صحابہ کرام (رض) کو اللہ تعالیٰ کے فضل وکر م سے کامیابی حاصل ہوتی تو وہ اپنی نمازوں اور ظاہری مسلمانی کا واسطہ دے کر یقین دہانی کرواتے کہ ہم ذاتی مجبوریوں اور جماعتی مصلحت کی خاطر کفار کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ جبکہ ہمارا اٹھنا بیٹھنا تمہارے ساتھ ہے لیکن جوں ہی کفار کا پلڑا بھاری دیکھتے ہیں تو انہیں اعتماد دلاتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھی ہیں۔ حقیقت میں ہم ہی نے تمہیں مسلمانوں سے بچایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو انتباہ کررہا ہے کہ دنیا میں تمہیں مہلت دی گئی ہے۔ جس کی وجہ سے تم مسلمانوں اور کافروں کے ساتھ خلط ملط ہوئے رہتے ہو۔ قیامت کے دن کھرے اور کھوٹے کو الگ الگ کر کے ان کے درمیان فیصلہ کردیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ منافقوں کو مومنوں پر ہرگز فوقیت نہیں دے گا۔ آیت کے آخر میں منافق کا لفظ استعمال کرنے کے بجائے کافر کا لفظ استعمال فرما کر واضح کیا ہے کہ یہ لوگ حقیقتاً کافر ہیں۔ اس آیت کے آخری الفاظ کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اے مومنو! پورے اخلاص اور استقامت کے ساتھ ڈٹے رہو۔ اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی ایسے حالات پیدا کرے گا کہ منافق مسلمانوں کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے۔ چنانچہ غزوۂ تبوک کے موقعہ پر منافقوں کو آپ سے سر عام معافی مانگنا پڑی۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا : ﴿یَعْتَذِرُوْنَ إِلَیْکُمْ إِذَا رَجَعْتُمْ إِلَیْھِمْ قُلْ لَّا تَعْتَذِرُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَکُمْ قَدْ نَبَّاَنَا اللّٰہُ مِنْ أَخْبَارِکُمْ وَ سَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُمْ وَ رَسُوْلُہ‘ ثُمَّ تُرَدُّوْنَ اِلٰی عٰلِمِ الْغَیْبِ وَ الشَّھَادَۃِ فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ سَیَحْلِفُوْنَ باللّٰہِ لَکُمْ إِذَا انْقَلَبْتُمْ إِلَیْھِمْ لِتُعْرِضُوْا عَن ھُمْ فَأَعْرِضُوْا عَنْھُمْ إِنَّھُمْ رِجْسٌ وَّ مَاْوٰ ھُمْ جَھَنَّمُ جَزَآءً بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْن یَحْلِفُوْنَ لَکُمْ لِتَرْضَوْا عَنْھُمْ فَإِنْ تَرْضَوْا عَنْھُمْ فَإِنَّ اللّٰہَ لَا یَرْضٰی عَنِ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ﴾ [ التوبۃ: 94تا96] ” جب تم ان کے پاس آؤ گے وہ تمہارے سامنے معذرت کریں گے۔ ان سے کہہ دیجیے بہانے نہ بناؤ ہم تمہاری باتوں پر یقین نہیں کریں گے کیونکہ اللہ نے ہمیں تمہارے حالات بتلا دیے ہیں اور آئندہ بھی اللہ اور اس کا رسول تمہارے کام دیکھ لیں گے پھر تم ایسی ذات کی طرف لوٹائے جاؤ گے جو کھلے اور چھپے سب حالات جانتا ہے وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کچھ کرتے رہے۔“ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں ایک دفعہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے اجازت چاہی کہ میں عبداللہ بن ابی کو قتل کروں لیکن آپ نے مجھے یہ فرما کر منع کیا کہ اس طرح لوگ کہیں گے کہ محمد (ﷺ) نے اپنے ساتھیوں کو قتل کروانا شروع کردیا ہے۔ چنانچہ تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ آپ کی حکمت عملی کا یہ نتیجہ نکلا کہ منافقین ہمارے سامنے بے بس ہوگئے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کا وعدہ دنیا میں ہی پورا ہوا۔ [ البدایۃ والنہایۃ] مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کفار کو مومنوں پر ہرگز فوقیت نہیں دے گا۔ 2۔ مسلمان فتح حاصل کریں تو منافق ان کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ 3۔ کفار فاتح بنیں تو منافق ان کے ساتھ ہمدری کا اظہار کرتے ہیں۔ 4۔ قیامت کو اللہ تعالیٰ سب کے درمیان فیصلہ فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن : مسلمانوں کی کفار پر بالا دستی : 1۔ مومن اور فاسق برابر نہیں ہو سکتے۔ (السجدۃ:18) 2۔ مومن اور کافر برابر نہیں ہیں۔ (الانعام :122) 3۔ مومن کافروں سے سربلند ہیں۔ (آل عمران :55) 4۔ متقین قیامت کو سربلند ہوں گے۔ (البقرۃ:212)