وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِّمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَاتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۗ وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا
اور اس آدمی سے زیادہ دین دار (121) کون ہوگا جو اپنی پیشانی اللہ کے سامنے جھکا دے، اور اس کا عمل بھی اچھا ہو، اور مسلم و موحد ابراہیم کی ملت کا متبع ہو، اور اللہ نے ابراہیم کو اپنا گہرا دوست بنا لیا تھا
فہم القرآن : (آیت 125 سے 126) ربط کلام : اچھی تمناؤں کے لیے اچھے اعمال کرناضروری ہیں جن کی بنیاد ملّتِ ابراہیم ہے۔ اس سے پہلے اہل کتاب کی بے بنیاد تمناؤں کی نفی کرکے وضاحت فرمائی کہ جہنم سے نجات اور جنت میں داخلہ محض نیک تمناؤں، خوش کن جذبات اور بلند بانگ دعووں کی بنیاد پر حاصل نہیں ہو سکتا۔ کا میابی کا انحصار ایمان اور نیک اعمال پر ہے جس کی دین اسلام رہنمائی کرتا ہے۔ اسلام نام ہے اللہ تعالیٰ کے حضور سر تسلیم خم کرنے کا۔ جس سے مراد کلی طور پر اپنے جذبات اور اعمال کو اللہ تعالیٰ کے تابع فرمان کرنا ہے۔ ایسا شخص ہی محسن یعنی نیکو کار کہلانے کا حقدار ہے۔ اس کے لیے یہودیت، عیسائیت اور دائیں بائیں کے راستے نہیں بلکہ ایک اور صرف ایک ہی راستہ ہے جسے ملت ابراہیم کے نام سے بیان کیا گیا ہے کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) نے ہر تعلق سے لاتعلق ہو کر اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا تابع فرمان کردیا تھا۔ جس کا یہ صلہ عطا ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے پوری انسانیت میں صرف ایک ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا خلیل قرار دیا ہے۔ اسی وجہ سے ہر امت کو اور خاص کر آخری رسول (ﷺ) کے پیروکاروں کو حکم ہوا کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی محبت کے خواہاں اور دنیا و آخرت کی کامیابی چاہتے ہو تو پھر تمہیں ملت ابراہیم پر چلنا ہوگا۔ یہاں یہ بھی وضاحت فرمائی کہ ابراہیم (علیہ السلام) کا عقیدہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کے حضور سر تسلیم خم کرنا تھا۔ یہ عمل اور نظریہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ انسان اور زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے اور مملوک کا فرض ہے کہ وہ اپنے مالک کے حکم کی بجا آوری کرتے ہوئے اس کے سامنے مکمل طور پر سرنگوں رہے۔ جس طرح زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنی ڈیوٹی نبھا رہی ہے۔ ایسے ہی انسان کو بھی اپنے خالق و مالک کا تابع فرمان ہونا چاہیے اور یاد رکھو ! کوئی اللہ کا دوست ہو یا دشمن وہ اللہ تعالیٰ کے اقتدار اور اختیار سے باہر نہیں اللہ تعالیٰ ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہ دعا پڑھا کرتے تھے : ﴿إِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَآ أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ﴾ [ الانعام :79] ” بلاشبہ میں نے تو یکسو ہو کر اپنا چہرہ اس کی طرف کرلیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں مشرکین سے نہیں ہوں۔“ رسول اللہ (ﷺ) بھی ان کی اتباع کرتے ہوئے ابتداء نماز میں یہ دعا پڑھتے : ﴿إِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ حَنِیْفًا۔۔﴾ [ الانعام :79] ” میں نے تو اپنا چہرہ یکسو ہو کر اس طرف کرلیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔“ [ رواہ ابوداؤد : کتاب الصلاۃ، باب مایستفتح بہ الصلاۃ من الدعاء ] خلیل کا معنٰی : خلیل کا لفظ خلت سے ہے جس کا معنی ہے ایسا دوست کہ جس سے بڑھ کر کوئی محبوب نہ ہودلی دوست۔ خیر خواہ۔ کمزور بدن والا۔ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) أَلاَ إِنِّی أَبْرَأُ إِلَی کُلِّ خِلٍّ مِنْ خِلِّہِ وَلَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِیلاً لاَتَّخَذْتُ أَبَا بَکْرٍ خَلِیلاً إِنَّ صَاحِبَکُمْ خَلِیل اللَّہِ ) [ رواہ مسلم : باب مِنْ فَضَائِلِ أَبِی بَکْرٍ الصِّدِّیق ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا میں ہر ایک کی دوستی سے برأت کا اظہار کرتا ہوں اگر میں کسی کو اپنا جگری دوست بنا تا تو وہ ابو بکر (رض) ہوتا تمھارا ساتھی اللہ تعالیٰ کا خلیل ہے۔ یعنی اللہ کی دوستی سب سے مقدم ہے۔“ مسائل : 1۔ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کرنے والابہترین مسلمان ہے۔ 2۔ ہر حال میں ملت ابراہیم کی پیروی کرنا چاہیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا دوست بنایا ہے۔ 4۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ملکیت اور تابع ہے۔ تفسیر بالقرآن : کس کا دین بہتر؟ 1۔ اللہ کے سامنے مطیع ہونے والے کا دین سب سے بہتر ہے۔ (النساء :125) 2۔ اللہ کے سامنے جھک جانے والامحسن ہے۔ (لقمان :22) 3۔ ابراہیم (علیہ السلام) اللہ کے مطیع و تابع فرمان تھے۔ (البقرۃ: 131، الانعام :79) 4۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کلی طور پر اللہ تعالیٰ کے فرماں بردار تھے۔ (البقرۃ:68) 5۔ نبی محترم (ﷺ) کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی پیروی کرنے کا حکم۔ (النحل :123) 6۔ امت محمدیہ کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اتباع کا حکم۔ (آل عمران :95) 7۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مشرکوں سے بیزاری کا اعلان کیا۔ (الانعام :14) 8۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زندگی اسوۂ حسنہ قرار پائی۔ (الممتحنۃ:4)