سورة العلق - آیت 1

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اے پیغمبر ! آپ پڑھئے اپنے رب کے نام (١) سے جس نے (ہر چیز کو) پیدا کیا ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 1 سے 5) ربط سورت : اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین شکل وصورت میں پیدا کیا ہے اور اسی نے انسان کو قلم کے ذریعے لکھنا پڑھنا سکھلایا ہے۔ سورہ التّین کے آخر میں ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ سب حاکموں سے بڑا حاکم ہے، اس نے اپنا حکم قرآن مجید کی صورت میں نازل فرمایا ہے جس کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ نبوت سے پہلے حضرت محمد (ﷺ) مکہ کے قریب غار حرا میں تشریف فرماتھے کہ اچانک جبریل امین آئے اور اس نے آپ کے سامنے اس سورت کی ابتدائی پانچ تلاوت کیں۔ نبی (ﷺ) نے اس واقعہ کی تفصیل سے یوں بیان فرمائی ہے۔ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ اَوَّلُ مَا بُدِئَ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ () مِنَ الْوَحْیِ۔۔ فَرَجَعَ بِھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ () یَرْجُفُ فُوَادُہٗ فَدَخَلَ عَلٰی خَدِیْجَۃَ فَقَالَ زَمِّلُوْنِیْ زَمِّلُوْنِیْ فَزَمَّلُوْہُ حَتّٰی ذَھَبَ عَنْہُ الرَّوْعُ فَقَالَ لِخَدِیْجَۃَ وَاخْبَرَھَا الْخَبَرَ لَقَدْ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ فَقَالَتْ خَدِیْجَۃُ کَلَّا وَاللّٰہِ لَا یُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَدًا اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَصْدُقُ الْحَدِیْثَ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَتَقْرِی الضَّیْفَ وَتُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ ثُمَّ انْطَلَقَتْ بِہٖ خَدِیْجَۃُ اِلٰی وَرَقَۃَ بْنِ نَوْفَلِ ابْنِ عَمِّ خَدِیْجَۃَ فَقَالَتْ لَہٗ یَاابْنَ عَمِّ اِسْمَعْ مِنِ ابْنِ اَخِیْکَ فَقَالَ لَہٗ وَرَقَۃُ یَاابْنَ اَخِیْ مَاذَا تَرٰی فَاَخْبَرَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ () خَبَرَ مَا رَاٰی فَقَالَ لَہٗ وَرْقَۃُ ھٰذَا النَّامُوْسُ الَّذِیْ اَنْزَلَ اللّٰہُ عَلٰی مُوْسٰی یَالَیْتَنِیْ فِیْھَا جَذَعًا لَیْتَنِیْ اَکُوْنُ حَیًّا اِذْ یُخْرِجُکَ قَوْمُکَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () اَوَمُخْرِجِیَّ ھُمْ قَالَ نَعَمْ لَمْ یَاْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمِثْلِ مَا جِئْتَ بِہٖ اِلَّا عُوْدِیَ وَاِنْ یُّدْرِکْنِیْ یَوْمُکَ اَنْصُرْکَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا ثُمَّ لَمْ یَنْشَبْ وَرَقَۃُ اَنْ تُوُفِّیَ وَفَتَرَ الْوَحْیُ) (رواہ البخاری : باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ (ﷺ) ) ” حضرت عائشہ (رض) وحی کے بارے اس طرح بیان کرتی ہیں کہ۔۔ رسول اللہ (ﷺ) اس وحی کے ساتھ واپس لوٹے تو آپ کا دل گھبرا رہا تھا۔ آپ خدیجہ (رض) کے پاس آئے اور ان سے فرمایا مجھے ! کمبل اوڑھا دو۔ انہوں نے آپ کو کپڑا اوڑھا دیا یہاں تک آپ سے خوف کی کیفیت دور ہوگئی۔ آپ نے حضرت خدیجہ (رض) کو سارا ماجرا بیان کیا اور فرمایا : مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے، انہوں نے آپ کو تسلی دی کہ ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی ضائع نہیں ہونے دے گا۔ آپ صلۂ رحمی کرتے ہیں، سچی بات کہتے ہیں، دوسروں کے بوجھ اٹھاتے ہیں، محتاج کی خبر گیری کرتے ہیں‘ مہمان کو کھاناکھلاتے ہیں اور مصیبت زدہ اور ضرورت مند کی مدد کرتے ہیں۔ اس کے بعد خدیجہ (رض) آپ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں، جو حضرت خدیجہ (رض) کے چچا زاد بھائی تھے۔ انہوں نے ورقہ سے کہا، اے میرے چچا کے بیٹے! اپنے بھتیجے کی بات سنیں۔ ورقہ نے آپ سے پوچھا اے میرے بھتیجے! آپ کیا دیکھتے ہیں؟ نبی (ﷺ) نے اسے پورا واقعہ بیان کیا۔ ورقہ نے کہا، یہ تو وہی فرشتہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی دے کر بھیجاتھا۔ کاش! میں تمہارے عہد نبوت میں جوان ہوتا اور کاش! میں اس وقت زندہ ہوتا جب آپ کی قوم آپ کو مکہ سے نکال دے گی۔ نبی (ﷺ) نے پوچھا۔ کیا وہ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے کہا، ہاں ! کیوں نہیں جب بھی کسی کو رسالت سے نوازا گیا تو اس کے ساتھ دشمنی کی گئی۔ جب لوگ تمہیں نکالیں گے اگر میں اس وقت تک زندہ رہا، تو تمہاری بھر پور مدد کروں گا۔ اس کے بعد ورقہ بن نوفل زیادہ دن زندہ نہیں رہے اور آپ پر وحی کا سلسلہ چند روز کے لیے منقطع رہا۔“ مفسرین نے لکھا ہے کہ پہلی وحی میں اس سورت کی پہلی پانچ آیات نازل کی گئیں جن کی ابتدا ان الفاظ سے ہوئی ہے کہ اپنے رب کے نام سے پڑھو جس نے پورے عالم کو پیدا کیا ہے، اسی نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا۔ پڑھو! آپ کا رب بڑا ہی معزز اور کریم ہے۔ اس نے انسان کو قلم کے ذریعے علم عطا فرمایا، ایسا علم جو انسان اس سے پہلے نہیں جانتا تھا۔ اس وحی میں یہ حکم ہوا ہے کہ اپنے رب کے نام سے پڑھو! جس کا صاف معنٰی ہے کہ نبی (ﷺ) اس سے پہلے اپنے رب کو پہچانتے تھے، جس رب کے نام سے آپ کو پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے اسی نے انسان کو ایسے خون سے پیدا کیا جو جم کرابتدا میں رحم کی جھلی کے ساتھ چمٹ جاتا ہے اور پھر اس سے انسان کی تخلیق کا آغاز ہوتا ہے۔ جس کی تفصیل چند سطور کے بعد آپ ملاحظہ فرمائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو قلم کے ذریعے لکھنا پڑھنا سکھایا اور انسان کو وہ علم دیا جس کے بارے میں وہ نہیں جانتا تھا۔ الانسان سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں اور ان کے بعد ابنیائے کرام (علیہ السلام) اور پھر تمام انسان ہیں۔ دنیا میں جس قدر علم عام ہوا ہے اس کی ابتدا اور بنیاد انبیائے کرام (علیہ السلام) کا علم ہے۔ اس کے بعد وہ علوم ہیں جو اللہ تعالیٰ انسانوں کے ذہنوں میں القاء کرتا ہے۔ اسی بنیاد پر کوئی موجد اپنی ایجاد لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ قلم کی فضیلت اور اس کی تفصیل پارہ 29سورۃ القلم کی ابتدائی آیات میں بیان ہوچکی ہے۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) وَرَفَعَ الْحَدِیثَ أَنَّہُ قَالَ إِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ وَکَّلَ بالرَّحِمِ مَلَکًا فَیَقُولُ أَیْ رَبِّ نُطْفَۃٌ أَیْ رَبِّ عَلَقَۃٌ أَیْ رَبِّ مُضْغَۃٌ فَإِذَا أَرَاد اللَّہُ أَنْ یَقْضِیَ خَلْقًا قَالَ قَالَ الْمَلَکُ أَیْ رَبِّ ذَکَرٌ أَوْ أُنْثَی شَقِیٌّ أَوْ سَعِیدٌ فَمَا الرِّزْقُ فَمَا الأَجَلُ فَیُکْتَبُ کَذَلِکَ فِی بَطْنِ أُمِّہِ) (رواہ مسلم : باب کَیْفِیَّۃِ الْخَلْقِ الآدَمِیِّ فِی بَطْنِ أُمِّہِ۔۔ ) ” حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے وہ حدیث کو مرفوع بیان کرتے ہیں آپ (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے رحم میں ایک فرشتہ مقرر کیا ہے وہ پوچھتا ہے اے میرے رب ! یہ نطفہ ہے اے میرے رب! یہ گوشت کا لوتھڑا جب اللہ تعالیٰ کسی کی تخلیق کا فیصلہ فرماتا ہے آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ فرشتہ کہتا ہے اے میرے رب مذکر یا مؤنث بدبخت یا خوش بخت اس کا رزق کتنا ہے اس کی عمر کتنی ہے، اسی طرح یہ سب کچھ انسان کی ماں کے پیٹ میں لکھ دیا جاتا ہے۔“ ﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنسَانَ مِنْ سُلَالَۃٍ مِّنْ طینٍ ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظَامًا فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ اَنشَئْنٰہُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ ثُمَّ اِِنَّکُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ لَمَیِّتُوْنَ﴾ (المومنون : 12تا15) ” اور یقیناً ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ پھر ہم نے اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا۔ پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی پھر لوتھڑے کو بوٹی بنایا۔ پھر بوٹی سے ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر اسے ایک دوسری شکل میں بناکھڑا کیا۔ بڑا ہی بابرکت ہے اللہ سب کاریگروں سے اچھا کاریگر۔ پھر اس کے بعد یقیناً تم نے مرنا ہے۔“ مسائل: 1۔ قرآن مجید کی ابتدا رب کے نام کے ساتھ کی گئی جو پورے عالم کو پیدا کرنے والا ہے۔ 2۔ رب العزت نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ہے۔ 3۔ ہمار رب بڑا ہی معزز اور کریم ہے۔ 4۔ ہمارے رب نے انسان کو قلم کے ذریعے علم عطا فرمایا جو انسان پہلے نہیں جانتا تھا۔ قلم کی عظمت جاننے کے لیے سورۃ ” ن“ کی پہلی آیت کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔