فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدِّينِ
پس اے انسان ! یہ سب باتیں جاننے کے بعد کون سی چیز تمہیں روز جزا کی تکذیب (٢) کی دعوت دیتی ہے
فہم القرآن: (آیت 7 سے 8) ربط کلام : ایمان کے بنیادی اجزا میں تیسرا بڑا جز یہ ہے کہ انسان اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لا کر یہ یقین رکھے کہ مرنے کے بعد اسے زندہ ہونا اور اپنے رب کی بارگاہ میں پیش کیا جانا ہے۔ آخرت کے عقیدے میں جس قدر تازگی اور پختگی ہوگی اسی قدر ہی انسان ایمان کے تقاضے پورے کرے گا۔ اس لیے ایمان اور صالح اعمال کا ذکر کرنے کے بعد ارشاد ہوا کہ اے انسان! تو کس طرح قیامت کو جھٹلاتا ہے؟ کیا تو نہیں سمجھتا کہ اللہ تعالیٰ تمام حاکموں سے بڑا حاکم ہے۔ اس کے حاکم اور عادل ہونے کا تقاضا ہے کہ وہ قیامت قائم کرے تاکہ ایماندار اور صالح اعمال کرنے والوں کو بہترین جزا دے جس میں کبھی کمی نہیں ہوگی اور ان لوگوں کو پوری پوری سزا دے جنہوں نے اس کی ذات اور اس کا حکم ماننے سے انکار کیا۔ اللہ تعالیٰ کے حاکم ہونے کا صرف یہ تقاضا نہیں کہ ایک مسلمان یہ عقیدہ رکھے کے قیامت قائم ہونی ہے اور مجھے اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حاکم ہونے کا یہ بھی تقاضا ہے کہ انسان انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اس کے حکم کو اپنے لیے آخری اور قطعی حکم تصور کرے۔ اس کے بغیر انفرادی زندگی کی اصلاح اور اجتماعی زندگی کا نظام درست نہیں ہو سکتا۔ ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن زمینوں اور آسمانوں کو یکجا کرکے اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے فرمائیں گے کہ میں ہی بادشاہ ہوں، ظالم اور غرور کرنے والے آج کہاں ہیں ؟ یَقُوْلُ اَنَا الْمَلِکُ اَیْنَ الْجَبَّارُوْنَ أَیْنَ الْمُتَکَبِّرُوْنَ“ (رواہ مسلم : کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار ) (عَنْ أَبِیْ الدَّرْدَاءِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) تَفْرَغُوْا مِنْ ہَمُوْمِ الدُّنِیَا مَا اسْتَطَعْتُمْ فَاِنَّہٗ مَنْ کَانَتِ الدُّنِیَا اَکْبَرُ ہَمَّہٗ اَفْشَی اللّٰہُ ضَیِّعَتَہٗ وَجَعْلَ فَقْرَہٗ بَیْنَ عَیْنَیْہِ وَمَنْ کَانَتِ الْاٰخِرَۃِ اَکْبَرُ ہَمَّہٗ جَمَعَ اللّٰہُ لَہٗ اَمُوْرَہٗ وَجَعَلَ غِنَاہُ فِیْ قَلْبِہٖ وَمَا اَقْبَلَ عَبْدٌ بِقَلْبِہٖ إِلَی اللّٰہِ إِلاَّ جَعَلَ اللّٰہُ قُلُوْبَ الْمُؤْمِنِیْنَ تَفِدُّ إِلَیْہِ بالْوَدِّ وَالرَّحْمَۃِ وَکَان اللّٰہُ إِلَیْہِ بِکُلِّ خَیْرٍ اَسْرَعُ) (معجم الاوسط، قال البزار لیس بہ باس) ” حضرت ابو درداء (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جہاں تک ہو سکے تم دنیا کے غموں سے چھٹکارا حاصل کرلو جس نے دنیا کی فکر کو بڑ اجان لیا اللہ تعالیٰ اس پر دنیا تنگ کردے گا اور محتاجی اس کی آنکھوں سے ٹپک رہی ہوگی۔ جس نے آخرت کو بڑی فکر سمجھ لیا اللہ تعالیٰ اس کے معاملات کو سنوار دے گا اور اس کے دل میں غنا پیدا کردے گا جو انسان اللہ کی طرف سچے دل سے متوجہ ہوجائے اللہ تعالیٰ اس کے لیے مومنوں کے دلوں میں محبت اور رحمت پید افرما دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر بھلائی میں جلدی کرتا ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ یَقُولُ قَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) مَنْ قَرَأَ مِنْکُمْ ﴿وَالتِّینِ وَالزَّیْتُونِ﴾ فَانْتَہَی إِلَی آخِرِہَا ﴿أَلَیْسَ اللَّہُ بِأَحْکَمِ الْحَاکِمِینَ﴾ فَلْیَقُلْ بَلَی وَأَنَا عَلَی ذَلِکَ مِنَ الشَّاہِدِینَ) (رواہ ابوداؤد : باب مِقْدَار الرُّکُوعِ وَالسُّجُودِ، قال شعبۃ صدق رَجُلٌ من حَدَّثَ، قال البانی حدیث ضعیف) ” حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جو سورۃ التین آخر تک پڑھے اسے چاہیے کہ وہ کے ﴿أَلَیْسَ اللَّہُ بِأَحْکَمِ الْحَاکِمِینَ﴾) جواب میں ” بَلَی وَأَنَا عَلَی ذَلِکَ مِنَ الشَّاہِدِین“ کہے۔“ مسائل: 1۔ آخرت کا انکار کرنے کے لیے انسان کے پاس کوئی جواز نہیں ہے اور سچ کے سوا کچھ نہ کہہ سکے گا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ تمام حاکموں سے بڑا حاکم ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ ہی حاکمِ کل ہے اور اسی کا حکم ماننا چاہیے : 1۔ اللہ تعالیٰ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔ (الکھف :26) 2۔ خبردار اسی کا حکم چلتا ہے اور وہ جلد حساب لینے والا ہے۔ (الانعام :62) 3۔ اللہ کا حکم ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ (یوسف :40) 4۔ اچھی طرح سنو ! کہ ساری کائنات کا خالق اللہ ہی ہے اور وہی حاکم مطلق ہے۔ (الاعراف :54) 5۔ آپ (ﷺ) ان کے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کریں۔ (المائدۃ:49) 6۔ جو کتاب اللہ کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہ ظالم، فاسق اور کافر ہیں۔ (المائدۃ: 44، 45، 47)