كَذَّبَتْ ثَمُودُ بِطَغْوَاهَا
ثمود (٢) نے اپنی سرکشی کے سبب (صالح کو یا عذاب کو) جھٹلا دیا
فہم القرآن: (آیت 11 سے 15) ربط کلام : نفس کو خاک آلود کردینے والے لوگوں کا انجام۔ قوم ثمود کی طرف حضرت صالح (علیہ السلام) مبعوث فرمائے گئے۔ صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو وہی فرمایا جو ان سے پہلے انبیاء کرام فرمایا کرتے تھے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے ڈرایا اور بار بار سمجھایا کہ میں تمھاری طرف اللہ کا رسول ہوں، اللہ تعالیٰ نے جو امانت میرے ذمہ لگائی ہے اسے نہایت ذمّہ داری اور دیانتداری کے ساتھ تم تک پہنچا رہا ہوں اور تم میری امانت ودیانت سے واقف ہو۔ اس لیے اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور رسول ہونے کی حیثیت سے میری تابعداری کرو، میں اپنی تابعداری اور نبوت کے کام پر تم سے کسی اجر کا طلب گار نہیں ہوں، میرا صلہ میرے رب کے ذمہ ہے۔ میں تمھیں اس بات سے متنبہ کرتا ہوں کہ جس فکر وعمل کو تم اختیار کیے ہوئے ہو اس کا انجام اچھا نہیں ہوگا یہ امن اور سلامتی کا راستہ نہیں اگر تم تائب نہ ہوئے تو یاد رکھو۔ لہلہاتے ہوئے باغ، بہتے ہوئے چشمے، سبز و شاداب کھیتیاں، کھجوروں سے لدے ہوئے باغ، پہاڑوں کو تراش تراش کر بنائے ہوئے محلات تمہیں رب ذوالجلال کے عذاب سے نہیں بچا سکیں گے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ سے ڈر کر میری اطاعت کرو۔ قوم ثمود کو اصحاب الحجر بھی کہا گیا ہے۔ اصحاب الحجر سے مراد وہ قوم اور علاقہ ہے جو مدینہ سے تبوک جاتے ہوئے راستے میں پڑتا ہے یہ علاقہ جغرافیائی اعتبار سے خلیج اربعہ کے مشرق میں اور شہر مدین کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔ قوم ثمود ٹیکنالوجی اور تعمیرات کے معاملے میں اس قدر ترقی یافتہ تھی کہ انہوں نے پہاڑوں کو تراش تراش کرمکانات اور محلات تعمیر کر رکھے تھے تاکہ کوئی زلزلہ اور طوفان انہیں نقصان نہ پہنچا سکے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے قوم کو بار بار سمجھانے کی کوشش کی کہ اے میری قوم ! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو اور اخلاقی حدود سے تجاوز نہ کرو، تم اصلاح کرنے کی بجائے زمین پر فساد کرنے والے ہو، قوم نے مثبت جواب دینے کی بجائے کہا کہ اے صالح ! تم اس طرح کی باتیں کرتے ہو جس طرح سحر زدہ لوگ کرتے ہیں۔ جس طرح ہم انسان ہیں تو بھی ہمارے جیسا انسان ہے اگر تو دعویٰ نبوت میں سچا ہے تو کوئی معجزہ ہمارے سامنے پیش کر۔ یاد رہے کہ ہمیشہ سے نافرمان لوگوں کا یہی وطیرہ رہا ہے کہ جب بھی کسی پیغمبر اور مصلح نے انھیں سمجھایا تو انھوں نے مصلح پر یہی الزام لگایا اور اعتراض کیا کہ تجھے تو جادو ہوگیا ہے اس لیے دیوانوں جیسی بات کرتا ہے۔ اس کے ساتھ منکرین کا یہ بھی اعتراض ہوتا تھا کہ نبی مافوق الفطرت ہستی کو ہونا چاہیے یہ تو ہماری طرح انسان ہیں۔ قوم ثمود نے حضرت صالح پر یہی الزام لگایا اور ان سے معجزہ کا مطالبہ کیا۔ اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ قوم نے حضرت صالح (علیہ السلام) سے یہ معجزہ طلب کیا کہ ہمارے سامنے اس پہاڑ سے ایک اونٹنی نمودار ہو اور اس کے پیچھے اس کا دودھ پیتا بچہ بھی ہونا چاہیے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کی تائید میں اور قوم کے مطالبہ کے عین مطابق اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے ایک پہاڑ سے اونٹنی اور اس کا بچہ نمودار کیا جب اونٹنی اپنے بچہ کے ساتھ قوم کے سامنے آئی تو حضرت صالح (علیہ السلام) نے قوم کو سمجھایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی اونٹنی ہے ایک دن یہ پانی پیا کرے گی اور دوسرے دن تم اور تمہارے جانور پئیں گے، خبردار! اسے تکلیف دینے کی نیت سے ہاتھ نہ لگانا اگر تم نے اس کو تکلیف پہنچائی تو اللہ تعالیٰ کا عذاب تمھیں دبوچ لے گا۔ اس انتباہ کے باوجود انھوں نے اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ ڈالیں جس کے نتیجہ میں ان کو عذاب نے پکڑلیا اور وہ ذلیل و خوار کر دئیے گئے۔ مسائل: 1۔ قوم ثمود نے اپنی سرکشی کی بنیاد پر حضرت صالح (علیہ السلام) کو جھٹلایا۔ 2۔ قوم ثمود نے معجزہ کے طور پر نمودار ہونے والی اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے قوم ثمود پر ان کے گناہوں کی وجہ سے عذاب نازل کیا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ مجرم قوم کو تباہ کرتے ہوئے کسی سے خوف نہیں کھاتا۔ تفسیر بالقرآن : قوم ثمود کا انجام : 1۔ قوم ثمود کے بدبختوں نے اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ دیں۔( الشمس :14) 2۔ قوم ثمود نے حضرت صالح (علیہ السلام) سے عذاب کا مطالبہ کیا۔ (الاعراف :77) 3۔ انھوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور وہ پریشان ہونے والوں میں ہوگئے۔ (الشعراء :157)