سورة الفجر - آیت 21

كَلَّا إِذَا دُكَّتِ الْأَرْضُ دَكًّا دَكًّا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

ہرگز نہیں (٩) جب زمین کوٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کردی جائے گی

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 21 سے 26) ربط کلام : جس مال پر انسان اترتا اور اسے جمع کر کے رکھتا ہے اس مال اور پوری دنیا کا انجام۔ دنیا دار انسان شعوری یا غیر شعوری طور پر سمجھتا ہے کہ اس کا مال اس کے پاس ہمیشہ رہے گا حالانکہ دنیا اور اس کی ہر چیز عارضی ہے، ایک وقت آنے والا ہے جب اس زمین پر زلزلے واقع ہوں گے اور ہر چیز تہس نہس کردی جائے گی زمین و آسمان بدل دیئے جائیں گے اور لوگوں کو محشر کے میدان میں جمع کرلیا جائے گا۔ جب لوگ محشر کے میدان میں جمع ہوجائیں گے تو جبریل امین اور تمام ملائکہ قطار اندر قطار کھڑے ہوں گے۔ (النبا :38) ملائکہ، انسان اور جنات رب ذوالجلال کی تشریف آوری کا انتظار کررہے ہوں گے تو اچانک زمین و آسمان کی ہر چیز روشن ہوجائے گی۔ (الزمر :69) جب ہر چیز جگمگا اٹھے گی تو رب ذوالجلال مخصوص ملائکہ کے ساتھ زمین پر جلوہ نما ہوں گے۔ اس دن جہنم کو حاضر کرلیا جائے جب مجرم جہنم کو دیکھے گا تو آہ وزاریاں کرتے ہوئے کہے گا کہ کاش! میں کوئی نیکی کرلیتا جس کا آج مجھے فائدہ پہنچتا لیکن اس دن نصیحت حاصل کرنے کا اسے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہر مجرم کی اس طرح گرفت کرے گا کہ کوئی بڑے سے بڑا طاقتور بھی اس طرح نہیں پکڑ سکتا پھر اسے اس کے جرائم کے مطابق ایسی سزادی جائے گی کہ اس جیسی سزا کوئی اور نہیں دے سکتا۔ دنیا میں بے شمار ایسے مجرم ہوتے ہیں جو اپنے اثرورسوخ کی و جہ سے سزا سے بچ جاتے ہیں لیکن قیامت کا دن ایسا ہوگا کہ کوئی مجرم رب ذوالجلال کی پکڑ اور سزا سے نہیں بچ سکے گا۔ ہر مجرم کو اس کے جرائم کے مطابق ٹھیک ٹھیک سزادی جائے گی ایسی سزا جس میں کسی پر ظلم نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر اپنے لیے ” جاء ربک“ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں کہ آپ کا رب ملائکہ کے ساتھ آئے گا۔ اس فرمان کے بارے میں بعض مفسرین نے بہت قیل و قال کی ہے ان کی منہ شگافیوں کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح تشریف لائے گا اور کیا اس وقت اس کا عرش خالی ہوجائے گا۔ اس قیل و قال کے دو ہی جواب ہوسکتے ہیں۔ 1۔ اس دن زمین و آسمان اور پوری کائنات کو بدل دیا جائے گا ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عرش آسمانوں کی بجائے زمین پر ہو۔ 2۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ سوچ انسان کے محدود تصور کا نتیجہ ہے کیونکہ انسان اس سے آگے سوچ ہی نہیں سکتا اس لیے قیامت کے معاملات کو اپنی سوچ پر قیاس کرنا جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں ایسا سوچنے کی اس لیے اجازت نہیں کیونکہ اس کا فرمان ہے۔ ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ﴾ (الشوریٰ :11) اللہ تعالیٰ کسی چیز کی مثل نہیں لہٰذا اس کی ذات اور صفات کو کسی کی ذات اور صفات پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اس نظام کو موجودہ نظام پر قیاس نہیں کرسکتے۔ مسائل: 1۔ قیامت کے دن زمین پوری طرح ہلا کر رکھ دی جائے گی، ججس سے زمین چٹیل میدان بن جائے گی۔ 2۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن محشرکے میدان میں جلوہ نما ہوگا۔ جبرئیل امین (علیہ السلام) اور فرشتے قطار اندر قطار کھڑے ہوں گے۔ 3۔ قیامت کے دن مجرم اپنے آپ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہیں گے۔ کاش! ہم آج کے دن کے لیے اچھے اعمال کرتے۔ 4۔ قیامت کے دن جہنم کو لوگوں کے سامنے لایا جائے گا۔ 5۔ اس دن اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر نہ کسی کی پکڑ ہوگی اور نہ اس سے زیادہ کوئی سزا دینے والا ہوگا۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ کی عدالت کا ایک منظر : 1۔ اللہ تعالیٰ انصاف کے ساتھ فیصلہ فرمائیں گے اور لوگوں پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (یونس :54) 2۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن حق کے ساتھ فیصلہ فرمائیں گے اور کسی پر ظلم نہیں ہوگا۔ (الزمر :69) 3۔ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں مجرم کی سفارش قبول نہ ہوگی۔ (البقرۃ :48) 4۔ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں خریدو فروخت، دوستی اور کسی کی سفارش کام نہ آئے گی۔ (البقرۃ :254)