لَّا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِّن نَّجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا
ان کی بہت سی سرگوشیوں (112) میں کوئی خیر نہیں ہے، سوائے اس آدمی (کی سرگوشی) کے جو کسی صدقہ یا بھلائی یا لوگوں کے درمیان اصلاح کا حکم دے، اور جو اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ایسا کرے گا، تو ہم اسے اجر عظیم عطا کریں گے
فہم القرآن : ربط کلام : منافقین کے کردار کے مختلف پہلوبیان کرنے کے ساتھ ان کی مجالس میں ہونی والی سازشوں کو طشت ازبام کیا ہے۔ برے لوگوں کی مجالس بھی اکثر طور پر بری ہی ہوا کرتی ہیں۔ خاص کر ان کی خفیہ مجالس کبھی شر سے خالی نہیں ہوا کرتیں۔ ایسے لوگ برائی، بے حیائی، چوری چکاری، سازش اور شرارت کے لیے ہی سوچ و بچار کرتے ہیں۔ رسول اللہ (ﷺ) نے اس قسم کے لوگوں کی مجلس کو لوہار کی بھٹی کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ (عَنْ أَبِیْ مُوْسٰی (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ مَثَلُ الْجَلِیْسِ الصَّالِحِ وَالسُّوْءِ کَحَامِلِ الْمِسْکِ وَنَافِخِ الْکِیْرِ فَحَامِلُ الْمِسْکِ إِمَّآ أَنْ یُّحْذِیَکَ وَإِمَّآ أَنْ تَبْتَاعَ مِنْہُ وَإِمَّآ أَنْ تَجِدَ مِنْہُ رِیْحًاطَیِّبَۃً وَنَافِخُ الْکِیْرِ إِمَّآ أَنْ یُّحْرِقَ ثِیَابَکَ وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ رِیْحًاخَبِیْثَۃً) [ رواہ البخاری : کتاب الذبائح والصید، باب المسک] ” حضرت ابوموسیٰ (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اچھے اور برے ساتھی کی مثال کستوری بیچنے والے اور بھٹی میں پھونکنے والے کی طرح ہے۔ کستوری بیچنے والا یا تو تمہیں تحفہ دے گا یا تم اس سے خرید لو گے یا تم اس سے اچھی خوشبو پاؤ گے اور بھٹی میں پھونکنے والا یا تو تمہارے کپڑوں کو جلا دے گا یا تو اس سے بری بو محسوس کرے گا۔“ قرآن مجید نے ایسی مجالس کو خیر سے خالی قرار دیا ہے۔ سوائے اس کے جن میں صدقہ و خیرات، اچھے کام اور لوگوں کی فلاح اور اصلاح کے بارے میں کوئی پروگرام ترتیب دیا جائے۔ دوسرے لفظوں میں اس آیت میں باہم مل بیٹھنے اور مجالس کی غرض و غایت کا اشارہ دیا ہے کہ برے لوگوں کو مل کر سازش اور شرارت کے منصوبے بنانے کے بجائے نیکی اور خیر کے پروگرام ترتیب دینے چاہییں یہ پروگرام محض نمود و نمائش کے لیے نہیں بلکہ ان کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی مطلوب ہونی چاہیے۔ رسول اللہ (ﷺ) نے ایک موقعہ پر چوراہوں میں بیٹھنے سے منع فرمایا تو صحابہ (رض) نے سماجی اور معاشرتی مجبوریوں کا ذکر کیا آپ نے ہدایت فرمائی کہ اگر تمہارے لیے چوراہوں میں بیٹھنا ناگزیر ہو تو تمہیں ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِ عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ إِیَّاکُمْ وَالْجُلُوْسَ بالطُّرُقَاتِ قَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! مَالَنَا بُدٌّ مِنْ مَّجَالِسِنَا نَتَحَدَّثُ فِیْھَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ ِ (ﷺ) إِذَآ أَبَیْتُمْ إِلَّا الْمَجْلِسَ فَأَعْطُوا الطَّرِیْقَ حَقَّہٗ قَالُوْا وَمَا حَقُّہٗ ؟ قَالَ: غَضُّ الْبَصَرِ وَکَفُّ الْأَذٰی وَرَدّالسَّلَامِ وَ الْأَمْرُ بالْمَعْرُوْفِ وَالنَّھْیُ عَنِ الْمُنْکَرِ) [ رواہ مسلم : کتاب السلام، باب من حق الجلوس علی الطریق رد السلام] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا رستوں اور چوراہوں میں بیٹھنے سے بچا کرو۔ صحابہ نے عرض کی کہ اللہ کے رسول ! بیٹھنا ہماری مجبوری ہے ہم وہاں تبادلہ خیال کرتے ہیں آپ نے فرمایا اگر تمہارا بیٹھنا ضروری ہے تو راستے کا حق ادا کیا کرو۔ صحابہ نے اس کا حق پوچھا تو آپ نے فرمایا نظر نیچی رکھنا، کسی کو تکلیف نہ دینا، سلام کا جواب دینا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا۔“ مسائل : 1۔ بےدین لوگوں کی اکثر مجالس خیر سے خالی ہوتی ہیں۔ 2۔ مجالس میں لوگوں کی فلاح و بہبود اور اچھے کاموں کی مشاورت ہونی چاہیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے کام کرنے والا بڑا اجر پائے گا۔ تفسیر بالقرآن : یہود و نصارٰی اور کفار کی مجالس : 1۔ مسلمانوں کو دھوکا دینے کے لیے دوغلی پالیسی اختیار کرنا۔ (البقرۃ:14) 2۔ نئے مسلمانوں کو مرتد بنانے کے لیے سازشیں کرنا۔ (آل عمران :73) 3۔ مسلمانوں کو ارتداد کی طرف لانے کے لیے کوششیں اور منصوبے بنانا۔ (البقرۃ:217) 4۔ زمین میں فساد کرنے کی کوشش کرنا۔ (البقرۃ:205) 5۔ یہود و نصارٰی کی سرگرمیاں۔ (المجادلۃ:8)