سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنسَىٰ
ہم نے آپ کو (قرآن) پڑھا (٣) دیں گے، پھر آپ اسے نہیں بھولئے گا
فہم القرآن: (آیت 6 سے 13) ربط کلام : رب تعالیٰ کی قدرتوں کا ذکر جاری ہے۔ جو ” رب“ اپنی قدرت سے نباتات کو اگاتا اور اسے کوڑا کرکٹ بناتا ہے اسی نے اپنی قدرت سے نبی (ﷺ) کو قرآن پڑھایا اور یاد کروایا۔ ان آیات کا یہاں لانے کا ایک مقصد یہ ہے کہ جس طرح انسان اور نباتات کا پہلے وجود نہیں تھا اسی طرح وحی سے پہلے آپ کی نبوت کا وجود نہ تھا۔ انسان اور دیگر چیزوں کے لیے فنا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی وحی کو فنا نہیں ہے۔ نبوت کے ابتدائی دور میں نبی (ﷺ) وحی کو یاد رکھنے کے لیے عجلت فرمایا کرتے تھے تاکہ وحی کا کوئی حصہ بھول نہ جائے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اطمینان دلایا کہ اے نبی (ﷺ) ! آپ کو پڑھنے اور یاد کرنے میں عجلت سے کام نہیں لینا چاہیے، ہم ہی آپ کو پڑھانے والے ہیں لہٰذا آپ وحی کا کوئی حصہ بھول نہیں پائیں گے سوائے اس کے جسے اللہ تعالیٰ آپ کو بھلانا چاہے، وہ کھلی اور چھپی باتوں کو جاننے والا ہے یعنی وہ جانتا ہے کہ آپ کیوں عجلت کرتے ہیں اس لیے کہ کوئی بات فراموش نہ ہوجائے۔ بے شک وحی کو یاد رکھنا اور اس کے تقاضے پورے کرنا مشکل کام ہے لیکن ہم نے آپ کے لیے اسے آسان کردیں گے، آپ کا کام نصیحت کرنا ہے۔ لہٰذا آپ اس شخص کو نصیحت فرمائیں جو نصیحت حاصل کرنا چاہتا اور اپنے رب سے ڈرنے والا ہے نصیحت سے وہی شخص اجتناب کرے گا جو بدبخت اور نافرمان ہے یہ بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکا جائے گا، اسے وہاں نہ موت آئے گی اور نہ ہی اس کے لیے زندگی ہوگی، گویا کہ یہ موت وحیات کی کشمکش میں رہے گا۔ وحی کو من وعن یاد رکھنا، اس کے مطابق عمل کرنا اور پھر اسے جوں کا توں لوگوں تک پہنچانا بڑا مشکل کام ہے۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ یہ کام اس قدر بھاری تھا کہ قریب تھا کہ آپ کی کمر ٹوٹ جائے لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے اسے آسان فرما دیا۔ (سورۃ: الم نشرح) یہی وجہ ہے کہ جتنے قلیل عرصہ میں نبی معظم (ﷺ) نے ہمہ گیر انقلاب برپا کیا۔ آپ سے پہلے اور آپ کے بعد اس کی کوئی مثال نہیں ملتی، جہاں تک آپ کا کسی بات کو بھول جانے کا معاملہ ہے اس کا یہ معنٰی نہیں کہ آپ دین کا کوئی حصہ کلی طور پر بھول گئے۔ آپ (ﷺ) کی حیات طیبہ میں اس کی کوئی مثال موجود نہیں البتہ دو تین مرتبہ نماز کی رکعات میں آپ کو سہو ہوا اور ایک، دو دفعہ نماز کے دوران تلاوت کرتے ہوئے سہو کا شکار ہوئے۔ اس کے علاوہ کوئی اور مثال موجود نہیں۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مَنْ دَعَا اِلٰی ھُدًی کَانَ لَہُ مِنَ الْاَجْرِ مِثْلُ اُجُوْرِ مَنْ تَبِعَہُ لَا یَنْقُصُ ذَلِکَ مِنْ اُجُوْرِھِمْ شَیْئًا وَّمَنْ دَعَا اِلٰی ضَلَالَۃٍ کَانَ عَلَیْہِ مِنَ الْاِثْمِ مِثْلَ اٰثَامِ مَنْ تَبِعَہُ لَا یَنْقُصُ ذَلِکَ مِنْ اٰثَامِھِمْ شَیْئًا) (رواہ مسلم : کتاب العلم) ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول معظم (ﷺ) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ خیر کی دعوت دینے والے کو اس پر عمل کرنے والے کے برابر ثواب ملے گا جبکہ ان لوگوں کے اجر میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔ جس نے برائی کا پرچار کیا وہ اس پر عمل کرنے والے کے برابر گنہگار ہوگا۔ اس سے ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔“ مسائل: 1۔ لوگوں کو نصیحت کرتے رہنا چاہیے۔ نصیحت کرنے میں ہی ایک مبلغ اور دوسروں کا فائدہ ہے۔ 2۔ نصیحت وہی شخص حاصل کرتا ہے جو اپنے رب سے ڈرتا اور گناہوں سے بچتا ہے۔ 3۔ جو ” اللہ“ کے خوف سے بے خوف ہوا اور سرکشی کرتارہا وہ بھڑکتی ہوئی آگ میں پھینکا جائے گا۔ 4۔ جہنم میں نہ موت آئے گی اور نہ اس میں زندگی ہوگی۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کو قرآن پڑھانا، اسے یاد کروانا اور اس کا ابلاغ کروانا اپنے ذمہ لیا تھا : 1۔ نبی اکرم (ﷺ) سے قرآن پاک کی تلاوت کروانا ” اللہ“ کے ذمہ ہے۔ ( القیامہ :17) 2۔ قرآن کی حفاظت کا کرنا اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے۔ ( الحجر :9) 3۔ قرآن کی وضاحت بھی ” اللہ“ کے ذمہ ہے۔ (القیامہ :19)