إِنَّهُ كَانَ فِي أَهْلِهِ مَسْرُورًا
وہ اپنے اہل و عیال میں خوش (٤) تھا
فہم القرآن: (آیت 13 سے 15) ربط کلام : جن لوگوں کو ان کی پیٹھ کی طرف سے ان کا اعمال نامہ دیا جائے گا ان کی دنیا میں حالت یہ تھی کہ وہ اپنے اہل وعیال میں خوش باش تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ انہیں اپنے رب کے ہاں واپس نہیں پلٹنا۔ ان کے اس عقیدہ کی تردید کرنے کے ساتھ یہ حقیقت بتلائی ہے کہ تم نے ہر صورت اپنے رب کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے۔ اس سورت کی آیت 9میں ارشاد ہوا کہ جس شخص کو دائیں ہاتھ میں اس کا اعمال نامہ دیا گیا وہ اپنے اہل خانہ کے پاس خوش و خرم جائے گا۔ اس کے بعد اس شخص کا ذکرہوا جسے اس کا اعمال نامہ اس کی پیٹھ کی طرف سے دیا جائے گا وہ جہنم میں داخل ہوگا۔ اس کے جہنم جانے کا بنیادی سبب یہ ہوگا کہ وہ اس بات پر یقین نہیں رکھتا تھا کہ اس نے بالآخر اپنے رب کے حضور پیش ہو کر اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ وہ آخرت کے بارے میں لاپرواہ تھا اور اپنے اہل وعیال میں بڑا مست رہتا تھا اور دنیا میں اس قدر محو اور مصروف تھا کہ دانستہ یا غیر دانستہ طور پر آخرت کو بھول چکا تھا ایسے شخص کو جونہی اس کا اعمال نامہ دیا جائے گا تو وہ خواہش کرے گا۔ ” مجرم چاہے گا کہ اس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے اپنی اولاد کو، اپنی بیوی کو، اپنے بھائی کو، اپنے قریب ترین خاندان کو جو اسے پناہ دینے والا تھا اور روئے زمین پر ہر چیز کو فدیہ میں دے دے اور اس طرح نجات پا جائے۔ ہرگز نہیں وہ تو بھڑکتی ہوئی آگ کی لپٹ ہوگی جو گوشت پوست کو چاٹ جائے گی وہ مجرم کو آواز پر آواز دے گی، ہر اس شخص کو جس نے حق سے منہ موڑا اور پیٹھ پھیری اور مال کمایا اور جمع کر کے رکھا۔“ (المعارج : 11تا18) ﴿وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ اِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًا﴾ (الفرقان :65) ” اللہ کے بندے دعائیں کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں جہنم کے عذاب سے بچالے جہنم کا عذاب تو چمٹ جانے والاہے۔“ مسائل: 1۔ جس نے آخرت کو فراموش کردیا وہ قیامت کے دن پچھتائے گا۔ 2۔ آخرت کو فراموش کردینے والا شخص اپنے حال اور مال میں مست رہتا ہے۔