وَإِذَا حُيِّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا
اور جب تمہیں سلام (93) کیا جائے تو اس سے اچھا جواب دو، یا اسی کو لوٹا دو، بے شک اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے
فہم القرآن : (آیت 86 سے 87) ربط کلام : قتال فی سبیل اللہ کا معنٰی ہر وقت اور ہر کسی سے لڑنا نہیں بلکہ جو بھی اسلام اور مسلمانوں کی طرف مائل ہو اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا لازم ہے۔ فرمایا جو تمہیں ہدیہ دے تو تم بھی اسے اس سے بہتر یا اس جیسا تحفہ دو۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی پر محاسب و نگہبان اور وہی معبود برحق ہے۔ جو تمہیں دنیا میں پیار، محبت اور توحید کی بنیاد پر اکٹھا رہنے کا حکم دیتا ہے۔ وہی قیامت کے دن تمہیں اکٹھا کرے گا۔ لوگوں کو جمع کرنے اور قیامت کے آنے میں ذرہ برابر شک نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ہر فرمان سچا اور اس سے بڑھ کر کسی کی بات سچی نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا سچ سنو، اسے قبول کرو اور اس پر قائم ہوجاؤ۔ یہاں تحفہ سے مراد مفسرین نے دو قسم کے تحائف لیے ہیں۔ رسول اللہ (ﷺ) نے عام تحائف کے بارے میں فرمایا کہ مسلمانو! ایک دوسرے کو تحفہ دیا کرو کیونکہ اس سے باہمی محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ [ مؤطا امام مالک : کتاب الجامع، باب ماجاء فی المھاجرۃ] لیکن تحائف کے تبادلہ میں ایک بات نہایت ضروری ہے کہ اس میں تکلف نہیں ہونا چاہیے۔ تکلف ایک دوسرے کے لیے بوجھ کا باعث بنتا ہے جس کی وجہ سے یہ سلسلہ دیرپا نہیں چلتا۔ ایسے تحائف میں نمائش کا عنصر غالب اور بسا اوقات فخر و غرور پیدا ہوتا ہے۔ جس سے محبت کی بجائے نفرت پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ مسلمان کو اعتدال کے ساتھ خرچ کرنے کا حکم اور تکلف سے منع کیا گیا ہے۔ یہاں مفسرین نے تحفہ سے مراد ایک دوسرے کو السلام علیکم کہنا بھی لیا ہے۔ ایک دوسرے کو سلام کہنے کی ابتداء حضرت آدم (علیہ السلام) سے ہوئی ہے۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا ان کا قد ساٹھ ہاتھ تھا۔ جونہی آدم (علیہ السلام) نے آنکھیں کھولیں اور اپنے وجود میں جنبش محسوس کی تو اللہ کی طرف سے ارشاد ہوا کہ اے آدم وہ ملائکہ کا ایک گروہ بیٹھا ہوا ہے‘ تم جاؤ اور انہیں سلام کرو۔ جواب میں ملائکہ جو الفاظ استعمال کریں گے وہی تیری اولاد کے لیے ملاقات کا طریقہ اور اسلوب مقرر کیا جائے گا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کے جواب میں فرشتوں نے ” وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ“ کے الفاظ کہے“ [ رواہ البخاری : أحادیث الأنبیاء، باب خلق آدم وذریتہ] اس گھڑی سے لے کر ملاقات کا یہی طریقہ پسند کیا گیا۔ اس لیے ہمیں ادھر ادھر کے الفاظ کہنے کے بجائے فطری اور طبعی طریقے کو اختیار کرنا چاہیے۔ کیونکہ اس میں اس قدر جامعیت ہے کہ ایک دوسرے کے لیے ہر لحاظ سے خیر سگالی کے جذبات، خیالات اور دعائیہ کلمات کا اظہار ہوتا ہے۔ دنیا کے کسی مذہب اور سوسائٹی میں ملاقات کے وقت اس قدر سلامتی کے جامع الفاظ اور جذبات نہیں ہوتے۔ دنیا میں ہر قوم کے ایک دوسرے سے ملنے کے کچھ آداب ہیں۔ جن سے باہم خیر سگالی اور محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسلامی تہذیب کے مقابلے میں ہر قوم کے آداب میں وقتی اور جزوی جذبات کا اظہار ہے۔ ہندو ملنے کے وقت پرنام یعنی ہاتھ جوڑ تے ہیں، انگریز گڈ مارننگ اور گڈنائٹ کے الفاظ کہتے ہیں، مجوسی صرف جھکتے ہیں، یہودی انگلیوں سے اشارہ کرتے ہیں، عیسائی منہ پر ہاتھ رکھتے ہیں۔ نبوت سے پہلے عرب صباح الخیر وغیرہ کے الفاظ استعمال کرتے تھے۔ جب کہ اسلام کی تہذیب یہ ہے کہ ملاقات کے وقت ” السلام علیکم و رحمۃ اللہ“ کہا جائے۔ یہ کلمات پورے دین کے ترجمان اور ہر لمحہ سلامتی کی دعا ہے اور جنتی جنت میں ایک دوسرے سے انہی کلمات کے ساتھ ملاقات کریں گے اور جنت میں ہر جانب سے سلامتی کی صدائیں بلند ہوں گی۔ [ یونس :10] اس حقیقت کی ترجمانی نبی اکرم (ﷺ) کے الفاظ سے اور زیادہ نمایاں ہوتی ہے کہ جب ایک مسلمان دوسرے سے ملاقات کرے تو اس کے چہرے پر تبسم اور مسکراہٹ ہونی چاہیے اور اس کو انسانی جسم کی سخاوت قرار دیا : (أَنْ تَلْقَ أَخَاکَ بِوَجْہٍ طَلْقٍ) [ رواہ مسلم : کتاب البر والصلہ، باب استحباب طلاقۃ الوجہ عند اللقاء] ” کسی کو خوش روئی سے ملنا بھی نیکی ہے۔“ مسلمانوں میں باہمی الفت و عقیدت، احترام و اکرام کو فروغ دینے کے لیے رسول اللہ (ﷺ) نے ہاتھ ملانے یعنی مصافحہ کرنے کی فضیلت کا تذکرہ ان الفاظ میں فرمایا : (إِذَا الْتَقَی الْمُسْلِمَانِ فَتَصَافَحَا وَحَمِدَا اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ وَاسْتَغْفَرَاہُ غُفِرَلَھُمَا) [ رواہ ابو داوٗد : کتاب الأدب] ” جب دو مسلمانوں کی باہم ملاقات ہو اور وہ مصافحہ کریں اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی حمد اور اپنے لیے مغفرت طلب کریں تو ان دونوں کو معاف کردیا جاتا ہے۔“ کچھ مدّت کے بعد ملنے پر بغل گیر ہونا اسلامی معاشرت کا حصہ قرار دیا ہے۔ حضرت ابوذر غفاری (رض) اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی (ﷺ) نے مجھے اپنے ہاں آنے کا پیغام بھیجا میں گھر میں موجود نہیں تھا۔ بعد ازاں میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا (وَھُوَ عَلٰی سَرِیْرِہٖ فَالْتَزَمَنِیْ فَکَانَتْ تِلْکَ أَجْوَدَ وَأَجْوَدَ) آپ (ﷺ) اپنی چار پائی پر بیٹھے میرے ساتھ بغلگیر ہوئے۔ آپ کا ملنا بہت ہی اچھا تھا۔ [ رواہ ابو داوٗد : کتاب الأدب، باب فی المعانقۃ] پھر ملاقات کے آداب میں مسلم معاشرے کو رعونت و غرور اور اخلاقی بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے یہ اصول لاگو فرمایا کہ سوار پیدل کو اور چلنے والا بیٹھنے والے کو سلام کرے۔ اگر یہی اصول ٹھہرایا جاتا کہ ہر حال میں چھوٹا بڑے کو‘ کمزور طاقتور کو اور محکوم حاکم کو سلام کرے تو مسلم سوسائٹی واضح طور پر طبقاتی کشمکش کا شکار ہوجاتی۔ آپ کا ارشاد ہے۔ (یُسَلِّمُ الرَّاکِبُ عَلَی الْمَاشِیْ وَالْمَاشِیْ عَلَی الْقَاعِدِ وَالْقَلِیْلُ عَلَی الْکَثِیْرِ) [ رواہ الترمذی : کتاب الإستئذان، باب ماجاء فی تسلیم الراکب علی الماشی] ” سوار پیدل کو اور چلنے والا بیٹھنے والے کو، تھوڑے زیادہ کو دوسری حدیث میں ہے کہ چھوٹا بڑے کو اسی طرح آنے والا پہلے سے موجود کو السلام علیکم کہے۔“ ہاں اگر ملنے والے ایک جیسی حالت میں ہوں تو احترام کی طبعی اور بین الاقوامی قدروں کا بھی خیال رکھا گیا کہ چھوٹا بڑے کو سلام کرے تاکہ مسلم معاشرہ ادب و احترام کے ثمرات سے لطف اندوز ہو سکے۔ اونچ نیچ کے مرض کے تدارک کے لیے یہ اصول بھی وضع فرمایا کہ کوئی سر جھکا کر نہ ملے اس سے بندگی کا انداز ظاہر ہوتا ہے۔ کیونکہ آپ (ﷺ) کا ارشاد عالی ہے : (لَوْکُنْتُ اٰمِرًا أَحَدًا أَنْ یَّسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ النِّسَآءَ أَنْ یَسْجُدْنَ لِأَزْوَاجِھِنَّ) [ رواہ ابو داوٗد : کتاب النکاح، باب فی حق الزوج علی المرأۃ] ” اگر میں نے کسی کو یہ حکم دینا ہوتا کہ وہ اللہ کے علاوہ کسی اور کے سامنے سر جھکائے تو میں عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کے سامنے سجدہ کیا کریں۔“ مسائل : 1۔ تحفہ کے بدلے میں بہتر تحفہ دینا چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ قیامت کے دن سب کو اکٹھاکرے گا۔ 3۔ قیامت برپا ہو کر رہے گی۔ 4۔ اللہ کے فرمان سے کسی کی بات سچی نہیں ہو سکتی۔ تفسیر بالقرآن : تحائف کا تبادلہ کرتے رہیں : 1۔ احسان کا بدلہ احسان۔ (الرحمان :60) 2۔ احسان کا بہتر بدلہ دینا چاہیے۔ (النساء :86)