وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ ۖ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَىٰ أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ ۗ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا
اور جب انہیں امن و خوف کی کوئی خبر ملتی ہے تو اسے پھیلانا (90) شروع کردیتے ہیں، حالانکہ اگر اسے رسول اور ذمہ داروں کے سپرد کردیتے، تو ان میں سے تحقیق کی صلاحیت رکھنے والے اس کی تہہ تک پہنچ جاتے، اور اگر اللہ کا تم پر فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی، تو چند لوگوں کے سوا تم سبھی شیطان کی اتباع کرنے لگتے
فہم القرآن : ربط کلام : منافق اپنی دوغلی پالیسی اور فکر کی وجہ سے مسلمانوں کو بھی دوغلے پن سے دوچار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ افواہوں اور جھوٹی خبروں کے ذریعے مسلمانوں میں دھڑے بندی کردی جائے۔ مدینہ کے یہودیوں اور منافقوں نے دشمنان اسلام کے ساتھ مل کر نبی کریم (ﷺ) کو پریشان کرنے اور مسلمانوں کے اعصاب توڑنے کے لیے افواہ سازی اور جھوٹی خبروں کا ایک سلسلہ قائم کر رکھا تھا۔ یہ لوگ اہل مکہ کی معمولی سرگرمیوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے تاکہ مسلمانوں کے حوصلے پست ہوجائیں۔ کبھی کفار کی طاقت کا معمولی تأثر دیتے کہ مسلمان جوابی کاروائی کرنے میں غفلت کا مظاہرہ کریں۔ بسا اوقات معمولی معاشرتی واقعہ کو ایسے رنگ میں پیش کرتے کہ مسلمانوں کے اخلاقی نظام کی بنیادیں کھوکھلی ہوجائیں۔ انہی افواہوں کا شاخسانہ تھا کہ جب حضرت عائشہ صدیقہ (رض) ایک سفر کے دوران رات کے وقت قضائے حاجت کے لیے اپنے خیمے سے نکل کر باہر تشریف لے گئیں وہاں ان کا ہار گم ہوگیا۔ اس کی تلاش میں واپس لوٹنے میں تاخیر ہوئی جب اپنی جائے قیام پر واپس تشریف لائیں تو قافلہ کوچ کرچکا تھا۔ آپ دوسرے صحابی کی سواری پر سوار ہو کر قافلے کے ساتھ شامل ہوئیں۔ اس دوران وہ صحابی اونٹ کی مہار تھامے پیدل چلتا رہا اور آپ دوپہر کے وقت قافلے سے آملیں۔[ رواہ البخاری : کتاب تفسیر القرآن، ﴿لولا إذ سمعتموہ ظن المومنون والمومنات بأنفسھم خیرا﴾] اتنے سے واقعہ کو منافقین نے ایسا رنگ دیا کہ جس نے کچھ دنوں کے بعد ایک تہمت اور مہم کی شکل اختیار کرلی جس کی تفصیل اور برأت سورۃ نور میں بیان ہوئی ہے۔ اس قسم کے واقعات کی تحقیق اور افواہوں کے منفی اثرات ختم کرنے اور ان کی روک تھام کے لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ اصول اور طریقۂ کار عطا فرمایا ہے کہ افواہ اچھی ہو یا خوفزدہ کرنے والی بالخصوص جنگ کے دوران اس کی چھان بین اور تجزیہ کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ورنہ ملک وملت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ایسی خبروں کو رسول معظم (ﷺ) اور ذمہ دار لوگوں کے سامنے پیش کرنا لازم ہے تاکہ وہ اس کی تحقیق اور اس کے نفع و نقصان اور حسن و قبح پر غور کرسکیں۔ لہٰذا عوام الناس کا فرض ہے کہ ایسی باتوں کو آگے پھیلانے کے بجائے متعلقہ اور ذمہ دار لوگوں کے سامنے پیش کریں۔ جس معاشرے اور قوم میں اس قسم کا نظام قائم نہ ہو اسے کسی وقت بھی معاشرتی، سیاسی اور حربی نقصان ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نقصان سے بچانے کے لیے سورۃ نور میں مسلمانوں کو تین مرتبہ فرمایا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہوتا تو دنیا و آخرت میں تم عذاب عظیم میں مبتلا کیے جاتے اور چند لوگوں کے سوا باقی شیطان کے پیچھے چل پڑتے‘ دوسرے لفظوں میں افواہ سازی اور اس پر یقین کرنا شیطانی کام ہے۔ آج یہ شیطانی دھندہ سائنسی شکل اختیار کرچکا ہے۔ کروڑوں ڈالر ایجنسیوں، اداروں، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر لگائے جارہے ہیں تاکہ مسلمانوں کو اسلام کے بارے میں متزلزل اور ان کے اخلاق کو بگاڑا جاسکے۔ افسوس ! کہ مسلمانوں کے پاس کوئی ایسا نظام نہیں جو ایسے اداروں کا مؤثر جواب دے سکے۔ جب کہ قرآن مطالبہ کر رہا ہے کہ اس قسم کی خبروں، افواہوں اور پروپیگنڈہ کے توڑکے لیے افراد ہونے چاہییں جو منفی اثرات سے مسلمانوں کو بچاسکیں۔ یہاں اسلامی صحافت کے لیے بھی رہنمائی ملتی ہے کہ وہ ہر خبر کی بلا تحقیق اشاعت کرنے سے پرہیز کرے۔ رسول اللہ (ﷺ) کا ارشاد ہے : (کَفٰی بالْمَرْءِ کَذِبًا أَنْ یُّحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ) [ رواہ مسلم : کتاب المقدمۃ، باب النھی عن الحدیث ....] ” آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے بیان کردے۔“ مسائل : 1۔ منافق اور غیر ذمہ دار لوگ مسلمانوں میں افواہیں پھیلاتے ہیں۔ 2۔ افواہیں پھیلانے کے بجائے معاملہ کتاب و سنت اور صاحب علم لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر آدمی ہر وقت گمراہ ہوسکتا ہے۔ 4۔ شیطان آدمی کو ہر وقت گمراہ کرنے کے درپے رہتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : افواہیں اڑاناجرم ہے : 1۔ بلا تحقیق بات کرنا ندامت کا باعث بنتا ہے۔ (الحجرات :6) 2۔ منافق افواہیں پھیلاتے ہیں۔ (النساء :83) 3۔ بے بنیاد افواہوں اور جھوٹے الزمات لگانے کی سزا۔ (النور :4)