أَلَمْ نَخْلُقكُّم مِّن مَّاءٍ مَّهِينٍ
کیا ہم نے تم سب کو حقیر پانی (٦) سے پیدا نہیں کیا ہے
فہم القرآن: (آیت 20 سے 28) ربط کلام : قیامت کا انکار کرنے والوں کو اپنی تخلیق پر غور کرنے کی دعوت۔ سور ۃ الدّھر کی ابتدائی آیات میں یہ بیان ہواکہ کیا انسان کو معلوم نہیں کہ اس پر ایک ایسا زمانہ گزرا ہے کہ اس کا کائنات میں ذکر تک نہیں تھا۔ اب ارشاد فرمایا ہے کہ کیا لوگ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ ہم نے انہیں ایک حقیر پانی سے پیدا کیا اور اپنی قدرت سے اسے ایک محفوظ مقام پر ٹھہرایا اور ہم پوری قدرت رکھنے والے ہیں یعنی انسان کی پوری زندگی اور اسے دوبارہ زندہ کرنے پھر اپنے حضور پیش کرنے پر قادر ہیں۔ گویا کہ انسان اپنے رب کے سامنے بے بس ہے نہ اپنی مرضی سے پیدا ہوتا ہے اور نہ اپنی مرضی سے جیتا اور مرتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود انسان قیامت کے دن کا انکار کرتا ہے۔ تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جو قیامت کے دن کو جھٹلاتے اور اس کا انکار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قیامت قائم کرنے کے بارے میں بہت سے دلائل دیئے ہیں ان میں ایک دلیل یہ ہے کہ انسان اپنی تخلیق پر غور کرے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے پانی کی ایک حقیر بوند سے پیدا کیا ہے۔ بظاہر اس پانی کی بوند میں نہ زندگی کی رمق دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی انسانی ڈھانچے کا وجود پایا جاتا ہے اس کے باوجود اس کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ اس نے معمولی جرثومے کے اندر انسان کے وجود اور کردار کو چھپا رکھا ہے۔ غور کرو کہ جو ذات انسان کو عدم سے وجود میں لاتی ہے کیا وہ اس کے مرنے کے بعد اسے دوبارہ پیدا نہیں کرسکتی؟ ظاہر ہے کہ وہ پیدا کرسکتا ہے اور کرے گا۔ اسی نے زمین کو اس قابل بنایا کہ وہ زندہ اور مردہ اور ہر چیز کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے۔ اسی نے زمین میں بلندوبالا پہاڑ جمائے اور تمہارے لیے میٹھے پانی کا انتظام فرمایا۔ زمین کی خصوصیت بیان فرماکر یہ ثابت کیا ہے کہ جس زمین میں مدتوں پڑے ہوئے بیج اللہ کے حکم سے اگ آتے ہیں کیا اس خالق کے حکم سے قیامت کے دن مردے دوبارہ پیدا نہیں ہوسکتے ؟ پھر سوچو! جس نے زمین پر بلندو بالا پہاڑ گاڑ دیئے ہیں اور وہی زمین اور پہاڑوں سے میٹھے چشمے جاری کرتا ہے کیا وہ انسان کو دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں؟ زمین سے ہزارہا چیزیں نکلتی ہیں اور ہزاروں چیزیں اس میں دفن ہوتی ہیں، معلوم نہیں یہ عمل کب سے جاری ہے اور کب تک جاری رہے گا۔ جس ذات کے حکم سے یہ عمل جاری ہے اسی کے حکم سے قیامت قائم ہوگی اور زمین ہر چیز اگل دے گی بلکہ وہ سب کچھ بتائے گی جو انسان اس کے سینے پر کیا کرتا تھا لہٰذا جو لوگ قیامت کو جھٹلاتے ہیں ان کے لیے بڑی مصیبت اور بربادی ہے۔ ” جب زمین پوری شدت کے ساتھ ہلادی جائے گی اور زمین اپنے اندر کے بوجھ نکال کر باہر پھینک دے گی اور انسان کہے گا کہ اس کو کیا ہوگیا ہے؟ اس دن وہ اپنے حالات بیان کرے گی کیونکہ آپ کے رب نے اسے ایسا کرنے کا حکم دیا ہوگا۔“ (الزلزال : 1تا5) ” حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے وہ حدیث کو مرفوع بیان کرتے ہیں آپ (ﷺ) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے رحم میں ایک فرشتہ مقرر کیا ہے وہ پوچھتا ہے اے میرے رب ! یہ نطفہ ہے اے میرے رب! یہ گوشت کا لوتھڑا ہے آپ (ﷺ) نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ کسی کی تخلیق کا فیصلہ فرماتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے اے میرے رب مذکر یا مؤنث بدبخت یا خوش بخت اس کا رزق کتنا ہے اس کی عمر کتنی ہے اسی طرح اس کا نیک اور بد ہونا اس کی ماں کے پیٹ میں لکھ دیا جاتا ہے۔“ (رواہ مسلم : باب کَیْفِیَّۃِ الْخَلْقِ الآدَمِیِّ فِی بَطْنِ أُمِّہِ وَکِتَابَۃِ رِزْقِہِ وَأَجَلِہِ وَعَمَلِہِ وَشَقَاوَتِہِ وَسَعَادَتِہِ) مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو حقیر پانی سے پیدا کیا ہے۔ 2۔ اللہ ہی جرثومے رحم مادر میں ایک جگہ ایک مقررہ مدت تک ٹھہراتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی قدرت رکھنے والا ہے۔ 4۔ قیامت کو جھٹلانے والوں کے لیے تباہی اور ہلاکت ہوگی۔ تفسیر بالقرآن: تخلیق انسانی کے مختلف مراحل : (النحل :4) (آل عمران :59) (النساء :1) (المؤمنون :12) (الدھر :2) (النساء :1)