سورة المرسلات - آیت 1

وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

ان ہواؤں کی قسم (١) جو پے درپے چلتی ہیں

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 1 سے 6) ربط سورت : الدّہر کے آخر میں یہ ذکر ہوا ہے کہ انسان اپنی عجلت کی وجہ سے آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دیتا ہے اور آخرت کو فراموش کرتا ہے حالانکہ آخرت کی زندگی ہمیشہ ہمیش رہنے والی ہے۔ سورۃ المرسَلٰت کی ابتداء میں آخرت کے ابتدائی مراحل کا ذکر گیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں اور نعمتوں میں ہوا بھی اس کی عظیم نعمت اور اس کی قدرت کی زبردست نشانی ہے جو انسان اور ہر جاندار کے لیے اس قدر ناگزیر ہے کہ اس کے بغیر انسان اور ہر جاندار چند لمحوں کا مہمان ہوتا ہے۔ عام لوگ ہوا کو ایک جیسی جانتے اور دیکھتے ہیں۔ بے شک اپنی جنس میں ہوا ایک ہے لیکن اپنی کیفیت اور اثرات کے اعتبار سے ہوا کی کئی اقسام ہیں یہاں اس کی پانچ اقسام ذکر کی گئی ہیں یہ اپنے اپنے اثرات اور حیثیت کے اعتبار سے اتنی مؤثر ہیں کہ سینکڑوں میلوں پر محیط فضا اور موسم کو یکدم بدل کر رکھ دیتی ہیں۔ کیونکہ فضا کو بدلنے میں ہوا بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس لیے ہوا کے اثرات اور کیفیت کو اجاگر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی الگ الگ کیفیت کا نام لے کر قسمیں اٹھائی ہیں تاکہ انسان کو اس بات کا احساس ہوجائے کہ جس ہوا اور فضا میں رہتا ہے وہ رب کی عظیم نعمت اور اس کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک بہت بڑی نشانی ہے اس لیے اس کی یوں قسمیں اٹھائی ہیں۔ قسم ہے ان ہواؤں کی جو مسلسل چلی جارہی ہیں، قسم ہے ان ہواؤں کی جو طوفان کی شکل اختیار کرتی ہیں، قسم ہے ان ہواؤں کی جو بادلوں کو فضا میں پھیلاتی ہیں، قسم ہے ان ہواؤں کی جو بھاری بھرکم بادلوں کو پھاڑ کر ٹکڑیوں میں تبدیل کردیتی ہیں، قسم ہے ان ہواؤں کی جو اپنی طوفانی کیفیت سے لوگوں کے دلوں میں اللہ کا خوف اور اس کی یاد پیدا کرتی ہیں۔ جیسا کہ گرمیوں میں ٹھنڈی ہوا لوگوں کے دلوں میں بارش کی طلب پیدا کرتی ہے اور آندھی کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے لوگ اپنے رب کی پناہ مانگتے ہیں۔ موجودہ سائنس نے ہوا کے فوائد کو بہت حد تک اجاگر کردیا ہے، اس کے لیے سائنسدان بڑی محنت اور طویل تحقیق کا سفر طے کر کے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہوا کے ذریعے نر پودے کے اثرات مادہ پودوں تک پہنچتے ہیں اور ہوا کے سبب ہی ایک آدمی کی آواز ٹی وی اور ریڈیوکے ذریعے سینکڑوں میلوں تک سنائی دیتی ہے۔ تجربات کے ذریعے یہ حقیقت بھی واضح ہوگئی ہے کہ مختلف ہو ائیں اپنے اندر مختلف اثرات رکھتی ہیں، یہ بات بھی روز روشن کی طرح واضح ہے کہ مختلف علاقوں کی ہواؤں میں مدّت اور نمی کا تناسب بھی مختلف ہوتا ہے یہاں تک ہوا کی طاقت کا معاملہ ہے۔ اگر ہوا آندھی کی شکل اختیار کرجائے تو بڑے بڑے درخت اور مکانوں کو اڑا کر رکھ دیتی ہے، اگر ہوا ایک حد سے زیادہ تیز اور مسلسل چلے تو انسان کو سانس لینا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ بعض اہل تفسیر نے اس سورت کی ابتدائی پانچ آیات کی یہ تفسیر بھی کی ہے۔ ان الفاظ میں صرف صفات بیان کی گئی ہیں، یہ صراحت نہیں کی گئی کہ یہ کس چیز یا کن چیزوں کی صفات ہیں اس لیے مفسرین کے درمیان اس بات میں اختلاف ہے کہ آیا یہ پانچوں صفات ایک ہی چیز کی ہیں یا الگ الگ چیزوں کی ہیں اور یہ چیزیں کیا ہیں، ایک گروہ کہتا ہے کہ پانچوں سے مراد ہوائیں ہیں، دوسرا فریق کہتا ہے کہ پانچوں سے مراد فرشتے ہیں، تیسرا کہتا ہے کہ پہلے تین سے مراد ہوائیں ہیں اور باقی دو سے مراد فرشتے ہیں، چوتھی جماعت کہتی ہے کہ پہلی دو سے مراد ہوائیں اور باقی تین سے مراد فرشتے ہیں اور ایک گروہ کی رائے یہ بھی ہے کہ پہلے سے مراد عام ملائکہ اور دوسرے سے مراد عذاب کے ملائکہ اور باقی تین سے مراد قرآن مجید کی آیات ہیں۔ (تفہیم القرآن جلد6) (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ مَا رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ () ضَاحِکًا حَتّٰی اَرٰی مِنْہُ لَھَوَاتِہٖ اِنَّمَا کَانَ یَتَبَسَّمُ فَکَانَ اِذَا رَاٰی غَیْمًا اَوْ رِیْحًا عُرِفَ فِیْ وَجْھِہٖ۔) (رواہ البخاری : باب ﴿فَلَمَّا رَأَوْہُ عَارِضًا مُسْتَقْبِلَ أَوْدِیَتِہِمْ قَالُوا ہَذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا بَلْ ہُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ بِہِ ریحٌ فیہَا عَذَابٌ أَلِیمٌ﴾) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول محترم (ﷺ) کو کبھی کھل کھلا کر ہنستے نہیں دیکھا۔ آپ (ﷺ) اکثر مسکرایا کرتے تھے۔ آندھی یا بارش کے وقت خوف کے اثرات آپ کے چہرے پر نمایاں ہوتے تھے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے ہوا کی کئی اقسام بنائی ہیں۔ 2۔ دنیا کے مختلف خطوں میں ہوا کے مختلف اثرات اور کیفیت ہوتی ہے۔