يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا خُذُوا حِذْرَكُمْ فَانفِرُوا ثُبَاتٍ أَوِ انفِرُوا جَمِيعًا
اے ایمان والو ! اپنے بچاؤ کا انتظام (79) کرلو، پھر فوجی دستوں کی صورت میں نکلو یا ایک ساتھ نکلو
فہم القرآن : (آیت 71 سے 73) ربط کلام : اطاعت رسول کا حکم اور اس کے ثمرات بیان کرنے کے بعد جہاد کا حکم دیا ہے تاکہ اطاعت رسول کرنے والے جہاد کے لیے نکل کھڑے ہوں۔ اسلام اور کفر کی پندرہ سالہ کشمکش اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی۔ معرکۂ بدر میں مسلمانوں کو بے مثال کا میابی حاصل ہوئی اور احد میں کفار کا پلڑا بھاری رہا۔ جس سے کفار اور یہود و نصارٰی کے حوصلے اس قدر بلند ہوئے کہ وہ سوچنے لگے کہ مسلمانوں کو ختم کرنا ناممکن کام نہیں لہٰذا اب فیصلہ کن مرحلہ آن پہنچا ہے کہ ایک فریق ہمیشہ کے لیے سرنگوں ہوجائے۔ اس بنا پر اہل مکہ اور یہود نے مدینہ کی چاروں جانب سازشوں کے جال بننا شروع کردیئے جس کی وجہ سے رسول اللہ (ﷺ) صحابہ (رض) کو گشت کے لیے بھیجا کرتے تھے تاکہ کفار کی نقل و حرکت کا بروقت علم ہو سکے۔ انہی حالات میں یہ حکم نازل ہوا کہ مسلمانو! ہر وقت چاک و چوبند رہو اور اپنا اسلحہ پکڑے رکھو۔ مراد یہ ہے کہ اسلحہ اس قدر قریب اور تیار ہونا چاہیے کہ ہنگامی حالت میں وقت ضائع کیے بغیر دشمن کا مقابلہ کیا جاسکے۔ پھر جنگ کے بارے ہدایات دیں کہ حالات کے مطابق تم گوریلا جنگ کرویا منظم طریقہ کے ساتھ جماعت کی صورت میں حملہ آور ہوتمہیں ہر طرح میدان کار زار میں اترنے کے لیے آمادہ و تیار رہنا چاہیے۔ اسی سے جنگ کے متعلق قوموں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مضبوط دفاع ہی قوموں کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے لہٰذا دشمن کی جارحیت سے بچنے کے لیے ہر وقت چوکس رہنا چاہیے۔ اس کے بعد منافقوں کے عزائم سے آگاہ کیا گیا کہ یہ تمہاری آستینوں کے سانپ اور گھر کے بھیدی ہیں ان کی سازشوں سے آگاہ رہنا نہایت ضروری ہے۔ ان کا حال یہ ہے کہ اگر تمہیں کوئی مشکل اور افتاد آ پڑتی ہے تو یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ نے ہم پر انعام کیا کہ ہم مسلمانوں کے ساتھ نہیں تھے۔ اگر تمہیں کامیابی نصیب ہو تو حسرت و افسوس سے کہتے ہیں کہ کاش! ہم بھی اس عظیم کامیابی میں مسلمانوں کے ساتھ ہوتے۔ (عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی عُبَیْدٍ قَالَ سَمِعْتُ سَلَمَۃَ بْنَ الأَکْوَعِ قَالَ مَرَّ النَّبِیّ (ﷺ) عَلَی نَفَرٍ مِنْ أَسْلَمَ یَنْتَضِلُونَ فَقَال النَّبِیُّ (ﷺ) ارْمُوا بَنِی إِسْمَاعِیلَ، فَإِنَّ أَبَاکُمْ کَانَ رَامِیًا ارْمُوا وَأَنَا مَعَ بَنِی فُلاَنٍ قَالَ فَأَمْسَکَ أَحَدُ الْفَرِیقَیْنِ بِأَیْدِیہِمْ فَقَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) مَا لَکُمْ لاَ تَرْمُونَ قَالُوا کَیْفَ نَرْمِی وَأَنْتَ مَعَہُمْ قَال النَّبِیُّ (ﷺ) ارْمُوا فَأَنَا مَعَکُمْ کُلِّکُمْ) [ رواہ البخاری : باب التَّحْرِیضِ عَلَی الرَّمْیِ] ” حضرت یزید بن ابی عبید کہتے ہیں میں نے سلمہ بن اکوع (رض) سے سناکہ ایک دن نبی اکرم (ﷺ) کا اسلم قبیلہ کے چند لوگوں پر گذر ہوا جو تیر اندازی میں مقابلہ کر رہے تھے آپ (ﷺ) نے فرمایا اے اسماعیل کی اولاد تیر اندازی کرو یقیناً تمھارے آباء بھی تیر انداز تھے تیر اندازی کرو میں فلاں قبیلہ کے ساتھ ہوں تو دوسرے فریق نے مقابلہ کرنا چھوڑدیا رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا تم تیر اندازی کیوں نہیں کرتے انہوں نے عرض کی کہ ہم تیر اندازی کیونکر کریں جبکہ آپ ان کے ساتھ ہیں آپ (ﷺ) نے فرمایا تم تیر اندازی کرو میں سبھی کے ساتھ ہوں“ مسائل : 1۔ امت کو انفرادی اور اجتماعی طور پر جہاد کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ 2۔ مسلمانوں کو ہر وقت اپنا دفاع مضبوط رکھنا چاہیے۔ 3۔ حالات کے مطابق جہاد انفرادی اور اجتماعی طور پر کرنا چاہیے۔ 4۔ منافق مسلمانوں کی آزمائش میں شامل ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ 5۔ منافق کو دنیا اور آخرت میں پچھتاوا ہوگا۔ تفسیر بالقرآن : ہر حال میں مضبوط دفاع : 1۔ تھوڑے ہو یا زیادہ دفاع مضبوط رکھو۔ (النساء :71) 2۔ کفار کے مقابلے میں ہر دم تیار رہو۔ (الانفال :60) 3۔ دفاعی قوت کے ذریعے اسلام دشمنوں کو مرعوب رکھو۔ (الانفال :60) 4۔ اسلحہ سے غافل نہ رہو۔ (النساء :102) 5۔ نماز میں اسلحہ اپنے پاس رکھو۔ (النساء :102) منافق کی حسرتیں : 1۔ جنگ میں نہ جاتے تو زندہ رہتے۔ (آل عمران :156) 2۔ با اختیار ہوتے تو قتل نہ ہوتے۔ (آل عمران :154) 3۔ ہماری بات مان لیتے تو نہ مرتے۔ (آل عمران :168) 4۔ کاش ہم فتح کے وقت مسلمانوں کے ساتھ ہوتے۔ (النساء :73)