سورة الإنسان - آیت 1

هَلْ أَتَىٰ عَلَى الْإِنسَانِ حِينٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُن شَيْئًا مَّذْكُورًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

کیا انسان پر زمانے کا ایک ایسا وقت گذرا (١) ہے جب وہ کوئی ایسی چیز نہیں تھا جس کا کہیں ذکر ہو

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 1 سے 3) ربط سورت : القیامہ کے آخر میں یہ بتلایا گیا ہے کہ انسان کو ایک نطفہ سے پیدا کیا گیا اور پھر نر اور مادہ کی صورت میں جوڑے بنا دئیے، دنیا میں انسان کا وجود نطفہ سے پہلے نہیں ہوتا جس کا ذکر اس سورت کی ابتداء میں یوں کیا گیا ہے کہ کیا انسان کو معلوم نہیں کہ زمانے میں اس کا ذکر تک موجود نہیں تھا پھر ” اللہ تعالیٰ“ نے اسے انسان کی شکل میں پیدا فرمایا۔ سورۃ الدھر کی ابتدا میں ” ھَلْ“ کا لفظ استعمال فرما کر سوال کیا ہے کہ انسان کو معلوم نہیں کہ اس پر ایک ایسا دور گزرا ہے کہ جب اس کا ذکر تک نہیں تھا اس دور سے مراد تین ادوار ہوسکتے ہیں۔ 1۔ تخلیق آدم سے پہلے کا دور۔ 2۔ انسان کی تخلیق کا دورانیہ جب وہ رحم مادر میں ہوتا ہے۔ 3۔ انسان کے بچپن کادور جب وہ کسی چیز پر اختیار نہیں رکھتا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا فرمایا۔ ” مَشِیْجٍ“ کی جمع ” اَمْشَاجٍ“ ہے اس سے مراد میاں بیوی کے نطفے کے وہ اجزاء ہیں جو رحم مادر میں آپس میں ملتے ہیں۔ اسی سے انسان کا وجود بنتا ہے اور انہی اجزاء کی بنیاد پر انسان کی رنگت، لیاقت اور قدوقامت وجود میں آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرما کر کھلا نہیں چھوڑ دیا بلکہ اس کی راہنمائی کا بندوبست فرمایا اور اسے سننے اور دیکھنے کی صلاحیتیں عطا فرمائیں جس کے لیے ” سمیع“ اور ” بصیر“ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ بظاہر تو ہر جاندار کان اور آنکھیں رکھتا ہے مگر ”سمیع“ اور ” بصیر“ کے اعتبار سے جو صلاحیتیں انسان کو عطا کی گئی ہیں وہ کسی اور جاندار میں موجود نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اسے ”سمیع“ اور ” بصیر“ یر“ بنایا ہے بلکہ اسے یہ صلاحیت بھی بخشی ہے کہ انسان جو کچھ سنتا اور دیکھتا ہے اس میں امتیاز کرنے کی دوسری مخلوق سے زیادہ صلاحیت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی دیکھنے اور سننے کی صلاحیتوں کو صحیح سمت پر چلانے کے لیے اس کی راہنمائی کا بندوبست فرمادیا ہے کیونکہ انسان کو ”سمیع“ اور ” بصیر“ بنایا ہے اس لیے اسے یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہنمائی سے فائدہ اٹھائے یا انحراف کرے۔ یہ بات اس کے دل میں ڈال دی گئی ہے۔ ” بُرائی اور پرہیزگاری بتلائی دی گئی ہے۔“ (الشمس :8) اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو زمین پر اترجانے کا حکم دیا، اس حکم کے ساتھ ہی یہ بھی حکم ہوا کہ اے آدم! جب میری ہدایت تم تک پہنچے تو اس کی اتباع کرنا۔ جس نے میری راہنمائی کو قبول کیا اور اس کی اتباع کی تو اسے کوئی خوف وخطر نہیں ہوگا۔ اس ہدایت کو واضح کرنے اور لوگوں کے سامنے عملی نمونہ پیش کرنے لیے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مبعوث کیے گئے جنہوں نے لوگوں کی راہنمائی کرنے کا حق ادا کردیا۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) کی تشریف آوری اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ ہدایت کا پہلا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے رب کی پہچان حاصل کرے اور اس کی نعمتوں کا اعتراف کرے جس نے اس کی ذات کی معرفت پا لی اور اس کی نعمتوں کا ادراک کرلیا وہ ضرور اس کی بندگی بجالائے گا۔ ہدایت کے بنیادی اجزاء تین ہیں۔ 1۔ اللہ تعالیٰ پر بلاشرکت غیرے ایمان لاکر خالص اس کی بندگی کرنا یعنی پوری زندگی کو اس کے حکم کے تابع کردینا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کی بندگی کا تقاضا ہے کہ نبی آخرالزمان (ﷺ) کی پوری طرح اتباع کی جائے اس کے بغیر کوئی عبادت قبول نہیں ہوگی۔ 3۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہوئے یقین رکھنا کہ ایک دن آنے والا ہے جب مجھے نیکی کی جزا اور برائی کی سزا دی جائے گی۔ مسائل: 1۔ ہر انسان پر ایسا دور گزرا ہے کہ اس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزمانے کے لیے اسے ”سمیع“ اور ” بصیر“ بنایا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو شکر اور کفر کے راستے میں فرق بتلا دیا ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ نے انسان کو ہدایت اور گمراہی سمجھا کر کھلا چھوڑ دیا ہے : (البقرۃ:120) (القصص :56) (البقرۃ :213) (الاعراف :43) (الاعراف :186) (النساء :88)