سورة القيامة - آیت 31

فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلَّىٰ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

پس اس نے نہ تصدیق (٩) کی اور نہ نماز پڑھی

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 31 سے 36) ربط کلام : قیامت کے منکر کو موت کے وقت اس لیے زیادہ تکلیف ہوتی ہے کیونکہ وہ نہ قیامت پر یقین رکھتا ہے اور نہ نمازی ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موت کے لمحات بڑے سخت ہوتے ہیں، ان لمحات سے مراد وہ لمحات ہیں جو روح نکلنے سے پہلے شروع ہوتے ہیں۔ جب مومن کی روح نکلنا شروع ہوتی ہے تو اس کے لیے وہ لمحات بہت آسان کر دئیے جاتے ہیں، جس کا حوالہ پچھلی آیت کی تفسیر میں دیا گیا ہے۔ جو شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لایا اور نہ اس نے قیامت کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی، نزع کے وقت اس کی بری حالت ہوتی ہے۔ اس کی حالت کا درج ذیل حدیث میں ذکر کیا گیا ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ وہ اعتقاداً یا عملاً اس شخص کی طرح ہوتا ہے جس کا تذکرہ ان آیات میں کیا گیا ہے۔ بعض مفسرین نے اس سے مراد ابوجہل لیا ہے۔ جس نے ایک موقعہ پر نبی معظم (ﷺ) کے ساتھ یہ انداز اختیار کیا تھا۔ اس نے نبی (ﷺ) اور قیامت کو جھٹلایا اور پھر متکبرانہ چال کے ساتھ پلٹا اور اپنے گھر کی طرف چل دیا۔ اس کے بارے میں کہا گیا کہ اس کے لیے بربادی ہی بربادی ہے یہ سمجھتا ہے کہ اسے یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہوگا بلکہ اسے جہنم کی آگ میں جھونکا جائے گا جس میں وہ اپنے کیے کی پوری پوری سزا پائے گا۔ (عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ (رض) عَنِ النَّبِیِّ () قَالَ مَنْ أَحَبَّ لِقَاء اللّٰہِ أَحَبَّ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ وَمَنْ کَرِہَ لِقَاء اللّٰہِ کَرِہَ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ قَالَتْ عَائِشَۃُ أَوْ بَعْضُ أَزْوَاجِہٖ إِنَّا لَنَکْرَہُ الْمَوْتَ قَالَ لَیْسَ ذَاکِ وَلٰکِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا حَضَرَہُ الْمَوْتُ بُشِّرَ بِرِضْوَان اللّٰہِ وَکَرَامَتِہِ فَلَیْسَ شَیْءٌ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِمَّا أَمَامَہٗ فَأَحَبَّ لِقَاء اللّٰہِ وَأَحَبَّ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ وَإِنَّ الْکَافِرَ إِذَا حُضِرَ بُشِّرَ بِعَذَاب اللّٰہِ وَعُقُوبَتِہٖ فَلَیْسَ شَیْءٌ کْرَہَ إِلَیْہِ مِمَّا أَمَامَہٗ کَرِہَ لِقَاء اللّٰہِ وَکَرِہَ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ) (رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب، من أحب لقاء اللّٰہ أحَب اللّٰہ لقاء ہ) ” حضرت عبادہ بن صامت (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جو اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور جو اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔ حضرت عائشہ (رض) یا آپ (ﷺ) کی بیویوں میں سے کسی ایک نے عرض کی کہ ہم تو موت کو ناپسند کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا بات یہ نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ جب مومن کی موت کا وقت آتا ہے تو اس کو اللہ کی رضامندی اور انعام واکرام کی بشارت دی جاتی ہے، اس بشارت کی وجہ سے موت اسے تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوجاتی ہے اس وجہ سے وہ اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور اللہ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے۔ جب کافر کی موت کا وقت آتا ہے تو اسے اللہ کے عذاب کی وعید سنائی جاتی ہے۔ یہ وعید اسے اپنے سامنے چیزوں سے سب سے زیادہ ناپسند ہوتی ہے اسی وجہ سے وہ اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔ (مومن موت سے پہلے گھبراتا اور تکلیف محسوس کرتا ہے جب اسے موت آتی ہے تو اپنے مالک کی ملاقات پر خوش ہوجاتا ہے۔) مسائل: 1۔ موت کے وقت بےدین شخص کو احساس ہوتا ہے کہ نہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کی تصدیق کی اور نہ ہی نماز پڑھی۔ 2۔ قیامت کو جھٹلانے والے اور بے نماز کی موت کے وقت بری حالت ہوتی ہے۔ تفسیر بالقرآ ن : قیامت کے منکر اور بے نماز کا انجام : 1۔ قیامت کو جھٹلانے اور لوگوں کو اللہ کے راستہ سے روکنے والے کے لیے جلا دینے والا عذاب ہوگا۔ (الحج :9) 2۔ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کرنے والے اور قیامت کو جھٹلانے والے عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے۔ (الروم :16) 3۔ قیامت کو جھٹلانے والوں کے لیے آگ کا عذاب ہوگا۔ (الفرقان :11) 4۔ بے نماز لوگ جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ (المدثر :43)