كَلَّا بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ
ہرگز نہیں، لوگو ! بلکہ تم جلد حاصل ہونے والی چیز (٥) (دنیا) کو پسند کرتے ہو
فہم القرآن: (آیت 20 سے 23) ربط کلام : اس سورت کا مرکزی مضمون قیامت کا قائم ہوناثابت کرنا ہے، اس بات کے لیے اللہ تعالیٰ نے دو قسمیں اٹھائیں اور دلائل کے ساتھ ثابت فرمایا ہے کہ قیامت ہر صورت واقع ہوگی۔ قیامت کے انکار کے پیچھے دیگر اسباب کے ساتھ ایک سبب یہ بھی ہے کہ انسان جلد باز واقع ہوا ہے۔ جلد بازی کی وجہ سے انسان چاہتا ہے کہ جواسے ملنا ہے وہ دنیا میں ہی مل جائے اور اس سے کوئی پوچھ گچھ نہ کی جائے۔ اس سوچ کی بنا پر وہ آخرت کو فراموش کردیتا ہے۔ جلدی کرنے والوں کے مقابلے میں وہ لوگ بہتر ہیں جو دنیا میں بھرپور کردار ادا کرنے کے باوجود آخرت کو نہیں بھولتے وہ دنیا کی خاطر جان بوجھ کر کوئی ایسا قدم نہیں اٹھاتے جس سے ان کی آخرت کھوٹی ہوجائے۔ قیامت کے دن ان لوگوں کو دائیں ہاتھ میں اعمالنامے دیے جائیں گے تو ان کے چہرے روشن اور ہشاش بشاش ہوجائیں گے اور وہ اپنے رب کے انوار و تجلیات کو دیکھ رہے ہوں گے۔ قرآن مجید نے اس منظر کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ اس دن کچھ چہرے ہشاش بشاش ہوں گے اور وہ اپنے رب کو دیکھ رہے ہوں گے۔ (عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِنِ الْخُدْرِیِّ (رض) اَنَّ نَا سا قالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ھَلْ نَرٰی رَبَّنَا یَوْمَ الْقِیَا مَۃِ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) نَعَمْ ھَلْ تُضَارُّوْنَ فِیْ رُؤیَۃِ الشَّمْسِ بالظَّھِیْرَۃِ صَحْوًا لَیْسَ مَعَھَا سَحَابٌ وَھَلْ تُضَارُّوْنَ فِیْ رُؤْیَۃِ الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ صَحْوًا لَیْسَ فِیْھَا سَحَابٌ قَالُوْا لاَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ مَا تُضَارُّوْنَ فِیْ رُؤْیَۃِ اللّٰہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اِلَّا کَمَا تُضَارُّوْنَ فِیْ رُؤْیَۃِ اَحَدِھِمَا۔۔) (رواہ البخاری : باب ﴿إِنَّ اللَّہَ لاَ یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ﴾) ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے دریافت کیا اے اللہ کے رسول (ﷺ) ! قیامت کے دن کیا ہم اپنے پروردگار کا دیدار کریں گے ؟ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا ہاں! کیا تم دوپہر کے وقت جب بادل نہ ہوں سورج کو دیکھنے میں دقّت محسوس کرتے ہو ؟ کیا بادل نہ ہوں تو چودھویں رات میں چاند کے دیکھنے میں تنگی محسوس کرتے ہو ؟ صحابہ نے جواب دیا، نہیں! اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا : قیامت کے دن تم اللہ تعالیٰ کے دیدار میں ہرگز مشکل نہیں پاؤ گے جس قدر تم ان دونوں میں سے کسی ایک کے دیکھنے میں تنگی پاتے ہو۔۔“