سورة القيامة - آیت 0

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان، بے حد رحم کرنے والا ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ القیامہ کا تعارف: اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی ابتداء میں القیامۃ اور لفظ لوامۃ کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ قیامت کا منکر سمجھتا ہے کہ اس کے مرنے کے بعد ہم قیامت کے دن اس کی ہڈیوں کو جمع نہیں کرسکیں گے؟ کیوں نہیں! ہم تو اس کی انگلیوں کا یک ایک پور ٹھیک ٹھیک طریقے سے جمع کریں گے۔ جو لوگ قیامت کا انکار کرتے ہیں دراصل وہ چاہتے ہیں کہ ہم اس طرح ہی نافرمانیاں کرتے رہیں اور ہمیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہونا چاہیے۔ اس لیے مذاق کے طور پر پوچھتے ہیں کہ قیامت کب آئے گی انہیں بتائیں کہ قیامت اس دن آئے گی جس دن آنکھیں پتھرا جائیں گی، چاند بے نور ہوجائے گا۔ اس دن انسان بھاگ جانے کی خواہش کرے گا لیکن وہ نہیں بھاگ سکے گا اور نہ ہی اس کے لیے کوئی پناہ کی جگہ ہوگی۔ اسے ہر صورت اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونا ہوگا اور اپنے اعمال کا جواب دینا ہوگا۔ اس کے بعد نبی (ﷺ) کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ آپ وحی کو جلدی جلدی نہ پڑھا کریں ہم آپ کو قرآن مجید پڑھائیں گے اور یاد بھی کروائیں گے اور اسے بیان کروانا بھی ہماری ذمہ داری ہوگی۔ اس کے بعد ایک مرتبہ پھر قیامت کے منکروں کو بتایا ہے کہ اس دن کچھ چہرے ترو تازہ ہوں گے اور وہ اپنے رب کو دیکھ رہے ہوں گے۔ کچھ چہرے اداس ہوں گے اور وہ سمجھ جائیں گے کہ ان کے ساتھ کمر توڑ دینے والا سلوک ہونے والا ہے۔ ان کے ساتھ اس سختی کا آغاز اس وقت ہوجائے گا جب ان پر موت کا وقت آئے گا۔ ایسے شخص کی موت اس لیے زیادہ سخت ہوگی کہ نہ وہ نماز پڑھتا تھا بلکہ دین اور قیامت کو جھٹلایا کرتا تھا۔ اس کے بعد قیامت کا انکار کرنے والے کو ان کی تخلیق کا حوالہ دے کر سمجھایا ہے کہ جس رب نے انسان کو ایک حقیر پانی کے قطرے سے پیدا کیا پھر اسے لوتھڑے میں تبدیل فرمایا پھر اس کا جسم بنایا اور اس کے اعضاء درست کیے پھر مرد اور عورت کی صورت میں اس کی دو قسمیں بنائیں جس رب نے یہ سب کچھ کیا ہے۔ کیا وہ اور ہر انسان کو اپنے کیے کا حساب دینا ہوگا۔ انسان کو اس کی موت کے بعد زندہ نہیں کرسکتا ؟ کیوں نہیں وہ قیامت کے دن ہر صورت ہر انسان کو زندہ کرے گا۔