فَكَيْفَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ثُمَّ جَاءُوكَ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا إِحْسَانًا وَتَوْفِيقًا
پھر یہ کیسی بات ہے کہ جب انہیں ان کے کرتوتوں کی وجہ سے کوئی مصیبت (70) لاحق ہوتی ہے، تو آپ کے پاس آکر اللہ کی قسم کھاتے ہیں، کہ ہم نے تو صرف بھلائی اور آپس میں ملانے کی نیت کی تھی
فہم القرآن : (آیت 62 سے 63) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ ہونے کے ساتھ منافقین کی دوغلی پالیسی سے نبی (ﷺ) کو آگاہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ آپ ان کو وعظ ونصیحت جاری رکھیں۔ اس فرمان میں آپ کو خبر دی جارہی ہے کہ آج تو منافقین اپنی سازشوں اور شرارتوں پر اتراتے اور دندناتے پھرتے ہیں۔ لیکن عنقریب وقت آنے والا ہے کہ جب ان کے کرتوت سامنے آئیں گے تو یہ اپنے کیے پر پچھتاتے اور آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر حلف اٹھاتے ہوئے یہ کہہ کر اپنی صفائی پیش کریں گے کہ اس کام میں ہماری یہ مصلحت تھی اور یہ کام ہم نے فلاں وجہ سے کیا ہے۔ ہمارا مقصد صرف اور صرف باہمی یگانگت اور موافقت پیدا کرکے اچھا ماحول پیدا کرنا تھا چنانچہ اس پیش گوئی اور خوشخبری کا ایک ایک حرف غزوۂ تبوک کے موقعہ پر پورا ہوا۔ جب آپ اس غزوہ سے واپس لوٹے تو پیچھے رہ جانے والے منافقین نے آپ کی خدمت میں آ آکر معذرتیں پیش کیں۔ لیکن آپ ان کے جواب میں خاموشی اور درگزر سے کام لیتے رہے۔ مزید گیا رھویں پارے کی ابتدائی آیات کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ منافقین کی غلط بیانی اور ملمع سازی پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ جو کچھ اپنے دلوں میں چھپائے بیٹھے ہیں۔ زبان سے اس کے خلاف دعویٰ کرتے ہیں۔ وہ اپنی باتیں دنیا والوں سے تو چھپا سکتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ سے نہیں چھپا سکتے وہ تو ان کے دلوں کو اچھی طرح جانتا ہے۔ لہٰذا میرے محبوب ! ان سے الجھنے کے بجائے اعراض فرمائیں، مسلسل نصیحت کرتے رہیں اور ان کو سمجھانے کے لیے اچھا انداز اور مؤثر الفاظ استعمال فرمائیں۔ اس میں آپ کی ذات گرامی کے حوالے سے ہر مبلغ کے لیے اصول ہے کہ وہ مخالفوں اور منافقوں کے ساتھ الجھنے کے بجائے بہتر رویہ اختیار کرے جس کا نتیجہ دنیا اور آخرت میں یقیناً بہتر ہوگا۔ حضرت عمر (رض) بیان کرتے ہیں ایک مرتبہ میں نے رسول کریم (ﷺ) سے عرض کی کہ آپ اجازت دیں تو میں عبداللہ بن ابی منافق کا سر قلم کر دوں لیکن آپ نے منع فرمایا اور کہا لوگ کہیں گے کہ محمد (ﷺ) اپنے ساتھیوں کو قتل کراتا ہے۔ [ رواہ البخاری : تفسیر القرآن، قولہ﴿ يَقُولُونَ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ ﴾] تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ ابن ابی اپنے اصل کردار کی وجہ سے اس قدر لوگوں کی نظروں میں حقیر ہوا کہ کوئی اس کے پروپیگنڈہ کی طرف توجہ نہیں کرتا تھا۔ اور اس طرح رسول اللہ (ﷺ) کا فیصلہ درست ثابت ہوا۔ مسائل : 1۔ مصیبت کے وقت منافق قسم اٹھا کر مسلمانوں کی رفاقت کا دعو ٰی کرتا ہے۔ 2۔ منافقوں سے چشم پوشی کر کے انہیں اچھی نصیحت کرتے رہنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : منافقین کی چالیں : 1۔ دوغلی زبان اور دوغلا کردار۔ (البقرۃ: 13، 14) 2۔ اسلام کا دعویٰ مگر طاغوت کے فیصلہ پر خوش ہونا۔ (النساء :60) 3۔ مسلمانوں کوتکلیف پہنچا کر صفائی کی قسمیں اٹھانا۔ (النساء :62) 4۔ بغیر تحقیق کے افواہیں اڑانا۔ (النساء :82) 5۔ صرف دنیا کی کامیابی کی چاہت رکھنا۔ (النساء :141) 6۔ زبان اور دل میں تضاد ہونا۔ (آل عمران :167) وعظ و نصیحت کا انداز کیا ہونا چاہیے؟ 1۔ نرم انداز میں گفتگو کرنی چاہیے۔ (طٰہٰ:44) 2۔ وعظ میں مؤثر انداز اختیار کرنے کا حکم (النساء :63) 3۔ جھگڑے کی بجائے احسن انداز اختیار کرنا۔ (النحل :125) 4۔ حکمت کے ساتھ موثر دعوت دینا چاہیے۔ (النحل :125) 5۔ بصیرت کے ساتھ دعوت دینا چاہیے۔ (یوسف :108)