أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَن يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا
کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعوی (68) کرتے ہیں کہ وہ آپ پر اتاری گئی اور آپ سے پہلے اتاری گئی کتابوں پر ایمان (69) لے آئے ہیں، چاہتے ہیں کہ غیر اللہ سے فیصلہ کرائیں، حالانکہ انہیں اس کے انکار کرنے کا حکم دیا گیا تھا، اور شیطان انہیں راہ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے
فہم القرآن : (آیت 60 سے 61) ربط کلام : اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم دے کر من گھڑت ایمان‘ نمائشی اطاعت کی تردید اور شیطان کی اتباع سے منع کیا گیا ہے۔ اہل کتاب کے بعد خطاب کا رخ منافقین کی طرف کردیا گیا۔ منافقین کا دعویٰ اور خیال تھا کہ وہ قرآن مجید اور پہلی کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں حالانکہ ان کا حال یہ ہے کہ منع کرنے کے باوجود چاہتے ہیں کہ ان کے فیصلے طاغوت کے ذریعے ہوں۔ یہ اس لیے کہ شیطان چاہتا ہے کہ انہیں دور کی گمراہی میں دھکیل دے تاکہ یہ ہدایت کی طرف نہ پلٹ سکیں۔ حافظ ابن حجر (رض) نے اس آیت کے تحت ایک واقعہ نقل کیا ہے جس سے منافقوں کی ذہنیت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ ہوا یوں کہ ایک منافق اور یہودی کے درمیان کسی معاملہ میں جھگڑا ہوا۔ یہودی نے مسلمان سے کہا کہ اس کا فیصلہ آپ کے نبی سے کروانا چاہیے لیکن منافق نے کہا کہ نبی کی بجائے یہودیوں کے سردار کعب بن اشرف سے فیصلہ لینا زیادہ بہتر ہے۔ منافق یہودی کے اصرار پر آپ (ﷺ) کے سامنے جانے کے لیے اس لیے مجبور ہوا کہ کہیں میری منافقت کا پتہ نہ چل جائے۔ جب ان دونوں نے رسول محترم (ﷺ) کے پاس مقدمہ پیش کیا تو آپ نے یہودی کا موقف صحیح سمجھ کر اس کے حق میں فیصلہ صادر فرمادیا۔ لیکن منافق نے یہ فیصلہ قبول کرنے سے انکار کردیا اور یہودی کو کہا کہ چلوعمر سے فیصلہ لیتے ہیں۔ کیونکہ منافق سمجھتا تھا کہ حضرت عمر (رض) یہودیوں کے سخت خلاف ہیں۔ اس لیے وہ تعصب کی بنیاد پر یہودی کے خلاف فیصلہ کریں گے۔ معاملہ جب حضرت عمر (رض) کے سامنے پیش ہوا تو یہودی نے کہا کہ اس پر آپ کے نبی پہلے فیصلہ دے چکے ہیں۔ تب حضرت عمر (رض) نے تلوار لا کر منافق کا سر قلم کرتے ہوئے فرمایا : (ھٰذَا قَضَآئِیْ مَنْ لَمْ یَرْضَ بِقَضَآءِ رَسُوْلِ اللّٰہِ) [ فتح الباری : کتاب المساقاۃ] ” جو رسول معظم (ﷺ) کے فیصلہ کو نہیں مانتا اس کے بارے میں میرا یہی فیصلہ ہے۔“ ﴿وَمَا کَانَ لِمُوْمِنٍ وَلَا مُوْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ اَمْراً اَنْ یَکُوْنَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُمِنْ اَمْرِ ہِمْ وَمَنْ یَعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْ لَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَا لاً بَعِیْداً﴾۔ [ الاحزاب :26] ” کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردے تو پھر اسے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑگیا۔“ مسائل : 1۔ قرآن و سنت کے خلاف فیصلہ کرنا اور کروانا شیطان کی پیروی کرنے کے مترادف ہے۔ 2۔ شیطان آدمی کو دور کی گمراہی میں ڈال دیتا ہے۔ 3۔ منافق اللہ اور اس کے رسول کی ہدایات سے انحراف کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : شیطانی ہتھکنڈے : 1۔ انسان کو گمراہ کرنے کے لیے شیطان کی اللہ تعالیٰ کے سامنے قسمیں۔ (صٓ:82) 2۔ شیطان کی خفیہ چالیں۔ (الاعراف :27) 3۔ شیطان گناہوں کو مزین و خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے۔ (الانعام :43) 4۔ شیطان خیالات کے ذریعے گمراہ کرتا ہے۔ (النّاس :5) 5۔ شیطان انسان سے کفر کروا کر خود پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ (الحشر :16) 6۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کو نور ہدایت کی طرف بلاتا ہے۔ (البقرۃ:257) 7۔ کفار کے دوست طاغوت ہوتے ہیں جو انہیں ظلمات کی طرف لے جاتے ہیں۔ (البقرۃ:25)