إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيلًا
ہم عنقریب آپ پر ایک بھاری کلام (٢) نازل کریں گے
فہم القرآن: (آیت 5 سے 10) ربط کلام : نماز تہجد اور اس میں تلاوت قرآن کا فائدہ۔ نبوت کا فریضہ تمام کاموں سے مشکل ترین کام ہے کسب معاش اور گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ کسی لالچ کے بغیر دن، رات لوگوں کی خدمت کرنا بالخصوص انہیں توحید کی دعوت دینا اور شرک سے منع کرنا انتہائی مشکل اور صبر آزما کام ہے۔ اس کے لیے انتہادرجے کی جفاکشی اور بڑے صبر وحوصلہ کی ضرورت ہے، صبر و حوصلہ اور جفاکش بننے کے لیے آدھی رات کو اٹھ کر مصلّے پر کھڑا ہونا اور غور وفکر کرتے ہوئے ٹھہر ٹھہر کر قرآن مجید کی تلاوت کرنا اپنے نفس پر قابو پانے کا بہترین طریقہ ہے۔ بشرطیکہ اسے صرف عادت اور عبادت کے طور پر نہیں بلکہ اپنے احتساب اور تربیت کے لیے بھی پڑھا جائے، پھر کوئی وجہ نہیں کہ تہجد گزار شخص میں حوصلہ اور ضبط نفس نہ پایا جائے اسی لیے آپ (ﷺ) کو فرمایا گیا کہ آپ رات کو اٹھا کریں کیونکہ رات کا قیام اور قرآن کی تلاوت نفس پر قابو پانے اور قرآن کو توجہ کے ساتھ پڑھنے کا بہترین وقت ہے۔ دن میں اور بھی مشاغل ہوتے ہیں اس لیے طبیعت میں وہ یکسوئی پیدا نہیں ہوتی جو آدھی رات یا رات کے پچھلے پہر میں پیدا ہوتی ہے۔ بس سب سے کٹ کر اسی کا ذکر کرو! وہی مشرق و مغرب کا رب ہے۔ اس کے سوا کوئی عبادت اور اطاعت کے لائق نہیں وہی حاجت روا اور مشکل کشا ہے۔ بس اسی کو اپنے تمام کاموں اور پوری زندگی کے لیے وکیل سمجھو اور بناؤ! وکیل کا معنٰی ہے کہ جسے اپنا کام سونپ دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ آدمی اسی کو اپنا کام سونپا ہے جس پر اس کا پورا اعتماد ہوتا ہے کہ وہ میرا کام اچھی طرح کرے گا اسی لیے ارشاد فرمایا کہ جب آپ (ﷺ) نے اپنے رب کو وکیل بنا لیا تو اب مخالفوں کی مخالفت پر گھبرانے کی بجائے صبر و حوصلہ سے کام لینا اور ان سے بہترین طریقے سے الگ ہوجانا چاہیے۔ الگ ہونے کا یہ مقصد نہیں کہ انہیں سمجھانا نہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ان سے الجھنے کی بجائے حکمت کے ساتھ سمجھانا اور ان کی بدکلامی اور ایذا پر صبر جمیل کرنا چاہے۔ صبر جمیل سے مراد ایسا صبر ہے جس میں کسی قسم کا شکوہ و شکایت نہ پایاجائے۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) الْمُؤْمِنُ الَّذِیْ یُخَالِطُ النَّاسَ وَیَصْبِرُ عَلٰی أَذَاھُمْ أَعْظَمُ أَجْرًا مِّنَ الْمُؤْمِنِ الَّذِیْ لَایُخَالِطُ النَّاسَ وَلَا یَصْبِرُ عَلٰی أَذَاھُمْ ) (رواہ ابن ماجۃ: کتاب الفتن، باب الصبر علی البلاء، ھٰذا حدیث صحیح) ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا : جو مومن لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے وہ اس مومن سے زیادہ اجر والا ہے جو نہ لوگوں میں گھل مل کررہتا ہے اور نہ ان کی دی ہوئی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے۔“ مسائل: 1۔ نفس پر قابو پانے کے لیے تہجد کی نماز بہترین عمل ہے۔ 2۔ تہجد کی نماز میں قرآن پڑھنے کا زیادہ لطف آتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہر تعلق سے بے تعلق ہوکر کرنا چاہیے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کے سوا مشرق ومغرب میں کوئی الٰہ نہیں لہٰذا اسی کو اپنا کارساز سمجھنا چاہیے۔ 5۔ حق کے خلاف لوگوں کی باتوں پر صبر کرنا چاہیے اور ان سے اچھے انداز میں الگ رہنا چاہیے۔ تفسیربالقرآن: اللہ تعالیٰ ہی کارساز ہے اور ہر حال میں اسی پر توکل کرنا چاہیے : 1۔ رسول کریم (ﷺ) کو اللہ پر توکل کرنے کی ہدایت۔ (النمل :79) 2۔ مومنوں کو اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کا حکم۔ (المجادلہ :10) 3۔ انبیاء اور نیک لوگ اللہ ہی پر توکل کرتے اور کرتے ہیں۔ (یوسف :67) 4۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا چاہیے کیونکہ وہ عرش عظیم کا مالک ہے۔ (التوبہ :129) 5۔ جو اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ اسے کافی ہوجاتا ہے۔ (الطلاق :3)