إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا
بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں (65) ان کے مالکوں تک پہنچا دو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو، تو انصاف کے ساتھ کرو، بے شک اللہ تمہیں اچھی بات کی نصیحت کرتا ہے، بے شک اللہ خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے
فہم القرآن : ربط کلام : اہل کتاب سے تورات و انجیل میں نبی (ﷺ) پر ایمان لانے کا عہد لیا گیا تھا۔ جس کو لوگوں کے سامنے بیان کرنا امانت داری کا تقاضا تھا لیکن انہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد اور اس امانت میں خیانت کی تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ہر شعبہ میں پرلے درجہ کے خائن ثابت ہوئے۔ امت کو مالی‘ اخلاقی، سیاسی اور عدالتی خیانت سے بچانے کے لیے ہر قسم کی ذمہ داری اس کے اہل لوگوں کے سپرد کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ اکثر مفسرین نے اس آیت کا شان نزول بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ آیت فتح مکہ کے موقعہ پر نازل ہوئی۔ جس کا پس منظر یہ ہے کہ رسول معظم (ﷺ) نے ہجرت سے پہلے بیت اللہ میں داخل ہونے کے لیے عثمان بن طلحہ سے چابی طلب فرمائی لیکن اس نے چابی دینے سے انکار کردیا۔ اس موقعہ پر آپ نے فرمایا عثمان وہ وقت ذہن میں لاؤ۔ جب یہ چابی میرے پاس ہوگی اور جس کو چاہوں گا عطا کروں گا۔ عثمان نے غصہ میں آکر کہا کہ کیا ہم اس وقت مر چکے ہوں گے؟ آپ نے فرمایا نہیں تم زندہ ہو گے لیکن اس کے باوجود چابی میرے پاس ہوگی۔ چنانچہ جب آپ نے مکہ فتح کیا تو بیت اللہ میں داخل ہونے کے لیے عثمان بن طلحہ سے چابی طلب فرمائی جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوا تھا۔ عثمان نے بڑی بے چارگی کے عالم میں آپ کو چابی پیش کرتے ہوئے عرض کی اللہ کے رسول ! اسے امانت سمجھیے۔ آپ نے بیت اللہ میں داخل ہو کر دو نفل ادا کیے اور آپ کے ساتھ حضرت بلال (رض) بھی تھے۔ جب نیچے تشریف لائے تو حضرت علی (رض) نے درخواست کی کہ یہ چابی ہمیں ملنی چاہیے کیونکہ حجاج کو زم زم پلانے کی ذمہ داری ہمارے پاس ہے۔ آپ نے فرمایا یہ ایفائے عہد کا دن ہے لہٰذا چابی عثمان بن طلحہ کو دی جائے گی۔ پھر عثمان بن طلحہ کو بلاکر یہ فرماتے ہوئے چابی عطا کی کہ یہ چابی ہمیشہ تمہارے پاس رہے گی۔ جس شخص نے تم سے چابی چھیننے کی کوشش کی وہ ظالم ہوگا۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ آپ اس وقت اس آیت کی تلاوت کر رہے تھے۔“ [ تفسیر ابن کثیر : النساء58] بے شک یہ آیت مبارکہ خاص موقعہ پر نازل ہوئی لیکن اس میں ہر قسم کی امانتوں کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے جس میں یہ اشارہ بھی موجود ہے کہ اے مسلمانو! قیادت و امامت اہل کتاب سے چھین کر تمہارے سپرد کی جارہی ہے انہوں نے اس کا حق ادا نہیں کیا لیکن تم اس کا حق ادا کرنا۔ اس آیت کی تفسیر میں مولانا امین احسن اصلاحی (رض) لکھتے ہیں : اس امانت کا انہوں نے حق ادا نہیں کیا جس منصب شہادت پر ان کو مامور کیا گیا اس کو انہوں نے چھپایا، جو کتاب ان کی تحویل میں دی گئی اس میں انہوں نے تحریف کی، جس شریعت کا ان کو حامل بنایا گیا اس میں انہوں نے اختلاف پیدا کیا، جن حقوق کے وہ امین بنائے گئے ان میں انہوں نے خیانت کی، جو فرائض ان کے سپرد ہوئے ان میں وہ چور ثابت ہوئے، جو عہد انہوں نے باندھے وہ سب توڑ ڈالے۔ اے امت محمدیہ کے لوگو! اب تمہاری اولین ذمہ داری یہ ہے کہ تم اس عظیم امانت کو ٹھیک ٹھیک ادا کرو یہاں لفظ امانت کے بجائے اما نات استعمال ہوا ہے جس میں اخلاقی، سیاسی امانتیں لوٹانے کے ساتھ رقم کی امانت بھی شامل ہے۔[ تدبر قرآن] اس لیے مفسرین نے سیاسی‘ مالی‘ اخلاقی اور اسلامی امانتوں کے ساتھ حقوق اللہ کو شامل کیا ہے۔ امانت میں سب سے بڑی امانت جس سے دنیا کا نظام بگڑتا اور سنورتا ہے وہ اختیارات کا استعمال ہے۔ اختیارات تبھی صحیح استعمال ہو سکتے ہیں جب یہ اہل اور صحیح لوگوں کو دیے جائیں۔ اگر نااہل، بددیانت اور اوباش لوگوں کو اختیارات سونپ دیے جائیں تو بہتر سے بہترین قانون اور منصب بھی نہ صرف اپنی افادیت کھو بیٹھتا ہے بلکہ یہ دنیا کی نظروں میں حقیر اور بے مقصد ہوجاتا ہے۔ رسول اللہ (ﷺ) نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ جب تمہارے حکمران نا اہل‘ حق سننے اور کہنے میں گونگے‘ بہرے ہوں گے تو پھر تمہیں قیامت کا انتظار کرنا چاہیے۔ اس کے برعکس عادل اور ذمہ دار حکمرانوں کے بارے میں فرمایا کہ وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے دائیں جانب چمکتے ہوئے منبروں پر جلوہ افروز ہوں گے۔ [ رواہ مسلم : کتاب الامارۃ] نااہل آدمی کو ذمہ داری دینے والا ملعون ہوتا ہے : رسول اللہ (ﷺ) کا ارشاد ہے کہ جس شخص کو مسلمانوں کی کوئی ذمہ داری دی جائے اور وہ صرف تعلق اور قرابت کی بنیاد پر کسی نااہل آدمی کو منصب سونپ دے اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے اور اس کی نفلی اور فرضی عبادت قبول نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ اسے جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ [ جمع الفوائد بحوالہ معارف القرآن] صحیح مشورہ دینا امانت ہے : رسول اللہ (ﷺ) کا ارشاد ہے جس شخص سے مشورہ لیا جائے وہ ایک طرح سے امین ہوتا ہے۔ اس کا فرض ہے کہ وہ اپنی سمجھ اور معلومات کے مطابق بلا رعایت صحیح مشورہ دے۔ اگر اس نے جان بوجھ کر غلط مشورہ دیا تو اس کے نتائج کا ذمہ دار ہوگا آپ نے اس کو جامع الفاظ میں یوں بیان فرمایا : (اَلْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَنٌ) [ رواہ الترمذی : کتاب الأدب، باب إن المستشار مؤتمن] ” جس سے مشورہ لیا جائے وہ صاحب امانت ہوتا ہے۔“ مجالس بھی امانت ہوتی ہیں : عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ وہی شخص امانت دار ہوتا ہے جس کے پاس روپیہ پیسہ یا کوئی سامان رکھا جائے حالانکہ قرآن و سنت میں دیانت وامانت کا وسیع تصور پایا جاتا ہے۔ جس کی تفسیر میں رسول اللہ (ﷺ) کا ارشاد ہے کہ باضابطہ مجالس بھی امانت ہوتی ہیں کیونکہ بسا اوقات مال و اسباب کا نقصان آدمی برداشت کرلیتا ہے یا اس کی تلافی ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر کسی اجلاس اور مجالس کا راز افشا کردیا جائے تو فرد اور خاندان ہی نہیں قوموں اور ملکوں کو ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے۔ اس لیے رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : ( اَلْمَجَالِسُ بالْأَمَانَۃِ) [ رواہ أبو داؤد : کتاب الأدب، باب فی نقل الحدیث] ” مجالس امانت ہوا کرتی ہیں۔“ مسائل : 1۔ مسلمان اہل لوگوں کو اپنے معاملات کا ذمہ دار بنائیں۔ 2۔ ذمہ دار لوگوں کا فرض ہے کہ وہ عدل و انصاف قائم کریں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بہت ہی اچھی نصیحت فرماتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : عدل و انصاف کا حکم : 1۔ عدل و انصاف کا حکم۔ (الاعراف :29) 2۔ فیصلہ کرتے وقت عدل و انصاف کا خیال رکھنا چاہیے۔ (صٓ:26) 3۔ فیصلہ اللہ کے حکم کے مطابق ہونا چاہیے۔ (المائدۃ:48) 4۔ انصاف کرنے والوں کو اللہ پسند کرتا ہے۔ (المائدۃ:42)