إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِنَا سَوْفَ نُصْلِيهِمْ نَارًا كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُم بَدَّلْنَاهُمْ جُلُودًا غَيْرَهَا لِيَذُوقُوا الْعَذَابَ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَزِيزًا حَكِيمًا
بے شک جن لوگوں (63) نے ہماری آیتوں کا انکار کیا، ہم انہیں آگ کا مزہ چکھائیں گے جب بھی ان کے چمڑے پک جائیں گے، ہم ان کے چمڑوں کو بدل دیں گے، تاکہ وہ عذاب کا مزہ چکھیں، بے شک اللہ زبردست اور بڑی حکمتوں والا ہے
فہم القرآن : ربط کلام : اہل کتاب بالخصوص یہودی حسد کی بنا پر اسلام اور مسلمانوں سے عداوت رکھتے ہیں لہٰذاحاسدوں اور منکروں کا انجام بیان ہوتا ہے۔ پہلے بھی عرض کیا ہے کہ قرآن مجید کا یہ مستقل اسلوب ہے کہ برے لوگوں کے مقابلے میں نیک لوگوں کا اور جہنم کی سزاؤں کے مقابلے میں جنت کی عطاؤں کا ذکر کرتا ہے۔ تاکہ قرآن کی تلاوت کرنے والا اپنے انجام کا موقع پر ہی فیصلہ کرسکے۔ چنانچہ جو لوگ کفر کی حالت میں کوچ کریں گے وہ مرنے کے بعد جہنم کے گھاٹ اتریں گے۔ جہاں ان کو آگ میں جلایا جاتا رہے گا۔ جب ان کی چمڑیاں جل جائیں گی تو سزا کے لیے ان کے جسموں کو باربار تبدیل کیا جائے گا تاکہ ان کو پوری پوری سزا مل سکے۔ وہ جہنم سے بھاگ سکیں گے اور نہ ہی جل کر راکھ ہوں گے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) ضِرْسُ الْکَافِرِ مِثْلُ أُحُدٍ وَغِلْظُ جِلْدِہٖ مَسِیْرَۃُ ثَلَاثٍ) [ رواہ مسلم : کتاب الجنۃ، باب النار یدخلھا الجبارون والجنۃ یدخلھا الضعفاء] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کافر کی ڈاڑھ احد پہاڑ کے برابر اور اس کی جلد تین دن کی مسافت کے مساوی موٹی ہوگی۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ مَابَیْنَ مَنْکِبَی الْکَافِرِمَسِیْرَۃَ ثَلَاثَۃِ أَیَّامٍ للرَّاکِبِ الْمُسْرِعِ) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا کافر کے دونوں کندھوں کا درمیانی فاصلہ تیز ترین گھوڑے کے تین دن دوڑنے کے برابر ہوگا۔“ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ نَارُکُمْ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِیْنَ جُزْءً مِنْ نَارِ جَھَنَّمَ قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنْ کَانَتْ لَکَافِیَۃً قَالَ فُضِّلَتْ عَلَیْھِنَّ بِتِسْعَۃٍ وَّ سِتِّیْنَ جُزْءً کُلُّھُنَّ مِثْلُ حَرِّھَا) [ متفق علیہ : وَاللَّفْظُ لِلْبُخَارِیِّ] وَفِیْ رِوَایَۃِ مُسْلِمٍ نَارُکُمُ الَّتِیْ یُوْقِدُ ابْنُ اٰدَمَ وَفِیْھَاعَلَیْھَا وَکُلُّھَا بَدَلَ عَلَیْھِنَّ وَکُلُّھُنَّ۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں۔ رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا تمہاری آگ، دوزخ کی آگ کے ستر حصوں میں سے ایک ہے آپ سے عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول! جلانے کو تو دنیا کی آگ ہی کافی تھی۔ آپ نے فرمایا دوزخ کی آگ کو دنیا کی آگ سے انہتر ڈگری بڑھا دیا گیا ہے۔ ہر ڈگری دنیا کی آگ کے برابر ہوگی۔ (بخاری و مسلم) یہ بخاری کے الفاظ ہیں اور مسلم کی روایت میں ہے‘ کہ تمہاری آگ جسے ابن آدم جلاتا ہے۔ نیز اس میں عَلَیْھِنَّ وَکُلُّھِنَّ کی بجائے عَلَیْہَا وَ کُلُّھَا کے الفاظ ہیں۔“ (عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیْرٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) إِنَّ أَھْوَنَ أَھْلِ النَّارِ عَذَابًامَّنْ لَّہٗ نَعْلَانِ وَشِرَاکَانِ مِنْ نَّارٍ یَغْلِیْ مِنْھُمَا دِمَاغُہٗ کَمَایَغْلِی الْمِرْجَلُ مَایَرٰی أَنَّ أَحَدًا أَشَدُّمِنْہُ عَذَابًا وَّإِنَّہٗ لَأَھْوَنُھُمْ عَذَابًا) [ رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب أھون أھل النار عذابا] ” حضرت نعمان بن بشیر (رض) بیان کرتے ہیں۔ رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا۔ یقیناً دوزخیوں میں سب سے معمولی عذاب پانے والے کے پاؤں میں آگ کے جوتے اور تسمے ہوں گے۔ جس کی وجہ سے اس کا دماغ ہنڈیا کی طرح کھول رہا ہوگا۔ وہ یہ خیال کرے گا کہ کسی دوسرے شخص کو اس سے زیادہ عذاب نہیں ہو رہا‘ حالانکہ وہ سب سے ہلکے عذاب میں مبتلا ہوگا۔“ مسائل : 1۔ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کرنے والوں کو جہنم میں جلایا جائے گا۔ 2۔ ان کی کھالوں کو بار بار بدلا جائے گا تاکہ ان کو پوری پوری سزا مل سکے۔ تفسیر بالقرآن : عذاب کی مختلف شکلیں : 1۔ آنتوں اور کھالوں کا بار بار گلنا۔ (النساء :56) 2۔ دوزخیوں کی کھال کا بار بار بدلنا۔ (الحج :20) 3۔ کانٹے دار جھاڑیوں کا کھانا۔ (الغاشیہ :6) 4۔ لوہے کے ہتھوڑوں سے سزا پانا۔ (الحج : 21، 22) 5۔ کھانا گلے میں اٹک جانا۔ (المزمل :13) 6۔ دوزخیوں کو کھولتا ہوا پانی دیا جانا۔ (الانعام :70) 7۔ دوزخیوں کو پیپ پلایا جانا۔ (النبا :25) 8۔ آگ کا لباس پہنایا جانا۔ (الحج :19)