قَالَ نُوحٌ رَّبِّ إِنَّهُمْ عَصَوْنِي وَاتَّبَعُوا مَن لَّمْ يَزِدْهُ مَالُهُ وَوَلَدُهُ إِلَّا خَسَارًا
نوح نے کہا، میرے رب ! انہوں نے میری نافرمانی (10) کی ہے اور ان لوگوں کی پیروی کرنے لگے ہیں جن کے مال اور اولاد نے ان کے خسارے میں اضافہ کردیا ہے
فہم القرآن: (آیت 21 سے 28) ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو مدت مدید تک دن اور رات سمجھایا مگر قوم نے کھلے لفظوں میں ان کی دعوت ماننے سے انکار کردیا۔ جس کے نتیجے میں حضرت نوح (علیہ السلام) نے ان الفاظ میں اپنے رب کے حضور فریاد کی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم کو دن اور رات، جلوت اور خلوت میں اللہ کی طرف بلاتے رہے مگر قوم نے کہا کہ تیرے کہنے پر وَدّ، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو نہیں چھوڑ سکتے۔ یاد رہے یہ اس قوم کے سب سے بڑے بت تھے اور اس قوم کے فوت شدہ بزرگوں کے تخیلاتی مجسمے تھے جو انہوں نے ان کی یاد میں بنائے ہوئے تھے۔ قوم نے نوح (علیہ السلام) کو یہ بھی دھمکی دی کہ اگر تو باز نہ آیا تو ہم پتھر مار مار کر تجھے مار ڈالیں گے۔ (الشعراء :116) اس کے ساتھ یہ کہنے لگے کہ اے نوح (علیہ السلام) ! تیرے اور ہمارے درمیان جھگڑا طول پکڑ گیا اس لیے جس عذاب کا ہم سے وعدہ کرتا ہے اسے لے آؤ اگر تو سچاہے۔ (ہود :32) بالآخر حضرت نوح (علیہ السلام) قوم کے رویے اور کردار سے مجبور ہو کر فریاد کرتے ہیں کہ اے میرے رب میری قوم نے مجھے یکسر طور پر جھٹلادیا ہے اور یہ اپنے بڑے لوگوں کے پیچھے لگ چکے ہیں جن کے مال اور اولاد یعنی ان کے اسباب اور افرادی قوت نے انہیں آخرت کے نقصان میں ہی آگے بڑھا یا ہے۔ انہوں نے دعوت توحید اور میرے خلاف بڑی سازشیں اور مجھ پر زیادتیاں کی ہیں۔ انہوں نے ایک دوسرے کو ہمیشہ یہی کہا کہ اپنے معبودوں بالخصوص وُد، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو نہ چھوڑاجائے، الٰہی ! انہوں نے بے شمار لوگوں کو گمراہ کیا ہے۔ اے میرے رب ! اب ان کافروں میں کوئی بھی زمین پر بسنے والا باقی نہیں رہنا چاہیے اگر تو نے انہیں چھوڑ دیا تو وہ تیرے بندوں کو گمراہ کرتے رہیں گے اور ان سے جو بھی پیدا ہوگا وہ بدکردار اور پرلے درجے کا کافرپیدا ہوگا۔ میرے رب! جب تو ان کی گرفت کرنے پر آئے تو مجھے، میرے والدین اور جو مرد و عورت مجھ پر ایمان لائے ہیں انہیں معاف فرما دے۔ نوح (علیہ السلام) کی قوم نے دیگر معبودوں کے ساتھ اپنے لیے پانچ بڑے معبود بنا رکھے تھے جن کے سامنے رکوع و سجود کرتے، نذرو نیاز پیش کرتے اور انہیں حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے تھے جن کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں۔ ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نوح (علیہ السلام) کی قوم جن بتوں کی پوجا کرتی تھی یہی بت لوگ عرب میں لے آئے۔ ودّ کو دومۃ الجندل والوں نے اپنا معبود بنا لیا اور سواع کو ھذیل والوں نے، یغوث کو مراد قبیلے والوں نے اور ان کے بعد بنی غطیف نے سبا بستی میں جرف مقام پر اور یعوق کو ہمدان والوں نے اور نسر کو قبیلہ حمیر والوں نے، جوذی الکلاع کی اولاد تھے اپنا معبود بنا لیا۔ یہ تمام نام نوح (علیہ السلام) کی قوم کے برگزیدہ لوگوں کے تھے، جب وہ فوت ہوگئے تو شیطان نے ان کی قوم کو القاء کیا۔ انہوں نے ان کے مجسموں کو اس جگہ پر نصب کیا، جہاں بزرگ بیٹھا کرتے تھے اور بتوں کے نام ان کے ناموں پر رکھ دیئے گئے، پہلے لوگ ان کی عبادت نہیں کیا کرتے تھے جب پہلے لوگ مر گئے تو ان کے بعدوالوں نے ان مورتیوں کی عبادت شروع کردی۔“ (رواہ البخاری : باب ﴿وَدًّا وَلاَ سُوَاعًا وَلاَ یَغُوثَ وَیَعُوقَ﴾) اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی بدعا کو قبول کیا اور ان پر ایسا سیلاب بھیجا کہ انہیں ڈبکیاں دے دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ (تفصیل کے لیے القمر کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔) مسائل: 1۔ قوم نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی تابعداری کرنے کی بجائے اپنے لیڈروں اور سرمایہ داروں کی پیروی کی۔ 2۔ قوم نے نوح (علیہ السلام) کے بارے میں بڑی بڑی سازشیں اور ان پر بہت زیادتی کی۔ 3۔ نوح (علیہ السلام) کی قوم کے سرداروں اور راہنماؤں نے اپنی عوام سے کہا کہ وُد، سواع، یغوث، یعوق اور نسر یعنی خداؤں ہرگز نہ چھوڑنا۔ 4۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے قوم کے ہاتھوں مجبورہو کر بالآخر ان کے لیے بدعا کی۔ 5۔ اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی بدعا کے بدلے ان کی قوم کو بدترین سیلاب کے ذریعے ڈبکیاں دے دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ 6۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے اور اپنے والدین، مومن مردوں اور عورتوں کے لیے بخشش کی دعا کی۔ تفسیر بالقرآن : حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم پر آنے والے سیلاب کا ایک منظر : 1۔ نوح (علیہ السلام) کی قوم ظالم تھی۔ (النجم :52) 2۔ قوم نوح طوفان کے ذریعے ہلاک ہوئی۔ (الاعراف :136) 3۔ یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آپہنچا اور تنور ابل پڑا۔ ہم نے فرمایا بیڑے میں ہر جنس دو دو جوڑے سے نرومادہ اور اپنے گھر والوں کو سوار کرلو۔ (ھود :40) 4۔ حکم دیا گیا اے زمین ! اپنا پانی نگل لے اور اے آسمان تھم جاؤ۔ پانی خشک کردیا گیا اور کام تمام ہوا اور کشتی جودی پہاڑ پر جاٹھہری اور کہا گیا ظالم لوگوں کے لیے دوری ہو۔“ (ھود :44) 5۔ قوم نوح کو تباہ کرنے کے لیے آسمان سے موسلاد ھار بارش کے دھانے کھول دئیے گئے۔ ( القمر :11)