أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّنَ الْمُلْكِ فَإِذًا لَّا يُؤْتُونَ النَّاسَ نَقِيرًا
کیا انہیں بادشاہت کا کوئی حصہ مل گیا ہے؟ (60) پھر تو یہ لوگوں کو کھجور کی گٹھلی کے نقطہ کے برابر بھی نہ دیں
فہم القرآن : (آیت 53 سے 55) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ ابھی تو یہودیوں کے پاس کوئی اقتدار اور اختیار نہیں۔ اگر ان کے پاس اقتدار اور اختیار ہو تو یہ کسی کو دمڑی بھی نہ دیں اور نہ ہی کسی کو دم مارنے دیں۔ اہل کتاب رسول کریم (ﷺ) کے ساتھ اس لیے حسد کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسماعیل کے یتیم کو نبوت کا تاج اور قوموں کی قیادت کیوں عطا فرمائی ہے جو روز بروز عملاً غلبہ پارہی ہے۔ یہ جس قدر چاہیں حسد کا مظاہرہ کریں۔ اللہ تعالیٰ دنیا میں آپ کو عزت و عظمت، امامت و قیادت اور دین کو غلبہ دے گا۔ جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد کو امامت و حکومت اور نبوت عطا کی تھی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں پھینکنے اور وطن سے نکالنے والے بالآخر ناکام ہوئے تھے اسی طرح انجام کے لحاظ سے یہ بھی ناکام ہوں گے۔ چنانچہ رسول معظم (ﷺ) نے یہ بات لوگوں کو اس وقت بتلائی جب خندق کھودنے کے دوران کچھ صحابہ کو ایسی چٹان سے واسطہ پڑا جس کو توڑنا ان کے لیے مشکل ہوا۔ انہوں نے آپ کی خدمت میں اس پریشانی کا اظہار کیا۔ آپ نے وہاں پہنچ کر اتنے زور سے کدال ماری کہ پہلی اور دوسری ضرب پر پتھر سے چنگاریاں نکلیں۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ میرے صحابہ خوش ہوجاؤ! اللہ تعالیٰ نے قیصرو کسریٰ کے خزانوں کی چابیاں مجھے عطا فرمادیں ہیں۔ [ مسند احمد : کتاب اول مسند الکوفیین، باب حدیث البراء بن عازب] رہی بات ان لوگوں کی جو آپ کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی آل میں بھی ایسے لوگ رہے ہیں جنہوں نے حسد و بغض اور باہمی مخالفت کی بنیاد پر اپنے باپ دادا کے دین سے انحراف کیا تھا۔ یہ لوگ بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد کے ساتھ نسبت کا دعویٰ رکھنے کے باوجود آپ کی ذات اور دعوت سے انکاری ہیں۔ ایسے بغیض اور حاسدوں کے لیے جہنم ہی کافی ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (ﷺ) قَالَ:إِیَّاکُمْ وَالْحَسَدَفَإِنَّ الْحَسَدَ یَأْکُلُ الْحَسَنَاتِ کَمَا تَأْکُلُ النَّارُ الْحَطَبَ) [ رواہ أبو داؤد : کتاب الأدب، باب فی الحسد] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا حسد سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ سوکھی لکڑیوں کو کھاجاتی ہے۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) یُؤْتٰی بِأَنْعَمِ أَھْلِ الدُّنْیَا مِنْ أَھْلِ النَّارِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُصْبَغُ فِی النَّارِ صَبْغَۃً ثُمَّ یُقَالُ یَاابْنَ آدَمَ ھَلْ رَأَیْتَ خَیْرًا قَطُّ ھَلْ مَرَّبِکَ نَعِیْمٌ قَطُّ فَیَقُوْلُ لَاوَاللّٰہِ یَارَبِّ وَیُؤْتٰی بِأَشَدِّ النَّاسِ بُؤْسًا فِی الدُّنْیَا مِنْ أَھْلِ الْجَنَّۃِ فَیُصْبَغُ صَبْغَۃً فِی الْجَنَّۃِ فَیُقَالُ لَہٗ یَا ابْنَ آدَمَ ھَلْ رَأَیْتَ بُؤْسًا قَطُّ ھَلْ مَرَّ بِکَ شِدَّۃٌ قَطُّ فَیَقُوْلُ لَا وَاللّٰہِ یَارَبِّ مَا مَرَّ بِیْ بُؤْسٌ قَطُّ وَلَا رَأَیْتُ شِدَّۃً قَطُّ) [ رواہ مسلم : کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار، باب صبغ أنعم أھل الدنیا فی النار وصبغ أشدھم بؤسا فی الجنۃ] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں اللہ کے رسول (ﷺ) نے فرمایا روز قیامت دنیا میں سب سے زیادہ ناز و نعمت میں پلنے والے جہنمی کو لا کر آگ میں غوطہ دیا جائے گا پھر اس سے پوچھا جائے گا کہ کیا تو نے کبھی کوئی خیر دیکھی؟ کیا کبھی تجھے کوئی نعمت میسر ہوئی؟ تو وہ کہے گا نہیں اللہ کی قسم! میرے رب میں نے کوئی نعمت نہیں دیکھی۔ پھر ایک جنتی کو لایا جائے گا جو دنیا میں سب سے زیادہ تکلیفوں میں رہا اسے جنت میں داخل کر کے پوچھا جائے گا اے ابن آدم! کیا تو نے کبھی کوئی تکلیف اور سختی دیکھی تو وہ جواباً کہے گا نہیں اللہ کی قسم! مجھے کبھی کوئی تکلیف اور مصیبت نہیں آئی۔“ مسائل : 1۔ آدمی کو حسد سے بچنا چاہیے۔ 2۔ یہودی بدترین قسم کے بخیل ہوتے ہیں۔ 3 ۔یہودی دوسروں پر حسد کرتے ہیں۔ 4۔ اہل کتاب لوگوں کو ہدایت سے روکتے ہیں۔ 5۔ لوگوں کو ہدایت سے روکنے والے جہنم میں جائیں گے۔