وَإِن يَكَادُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَيَقُولُونَ إِنَّهُ لَمَجْنُونٌ
اور کفار جب آپ سے قرآن (17) سنتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ مارے غیظ و غضب کے آپ کو اپنی نگاہوں سے پھسلا دیں گے، اور کہتے ہیں یہ دیوانہ آدمی ہے
فہم القرآن: (آیت 51 سے 52) ربط کلام : اس آیت سے چند آیات پہلے یہ ارشاد ہوا کہ اے پیغمبر (ﷺ) ! ان لوگوں کو ان کی حالت پر چھوڑ دیں جو ہمارے ارشادات کی تکذیب کرتے ہیں ان کی حالت یہ ہے جب آپ ان کو نصیحت کرتے ہیں تو آپ کو ڈراؤنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور آپ کو مجنون کہتے ہیں حالانکہ آپ انہیں قرآن مجید کے ساتھ نصیحت کرتے ہیں جو ان کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ نبی (علیہ السلام) کسی پر کسی اعتبار سے بھی بوجھ نہ تھے لیکن اس کے باوجود کفار اور مشرکین آپ کی مخالفت کرتے اور آپ پر الزامات لگاتے تھے۔ حالانکہ نبی کریم (ﷺ) نبوت سے پہلے بھی کفار میں انتہائی سمجھدار اور محترم جانے جاتے تھے۔ کفار مشکل وقت میں آپ (ﷺ) سے فیصلے کرواتے اور اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھا کرتے تھے، لیکن جونہی آپ نے اپنی دعوت کا آغاز کیا تو مشرک آپ کو استہزاء کا نشانہ بناتے اور آپ پر کئی قسم کے الزامات لگاتے تھے۔ ان کے الزامات میں ایک الزام یہ تھا کہ اس کا دماغ چل چکا ہے حالانکہ آپ (ﷺ) کا کوئی فرمان اور عمل ایسا نہ تھا جس میں رتی برابر بھی شائبہ پایا جائے کہ آپ کی عقل میں فتور آچکا ہے آپ فطری طور پر بڑے مدبّر انسان تھے۔ نبوت کے بعد آپ کے تدبر میں اتنا اضافہ ہوا کہ جس تک پہنچنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔ آپ (ﷺ) ہر اعتبار سے کامل اور اکمل انسان، خاتم المرسلین اور امام الانبیاء تھے۔ لیکن اس کے باوجود آپ کے مخالف آپ کو دیوانہ کہتے تھے، جب آپ انہیں سمجھاتے اور خطاب فرماتے تو وہ آپ کو اس طرح ڈراؤنی اور نفرت انگیز نظروں سے دیکھتے جیسے آنکھوں آنکھوں میں آپ کو کھا جائیں گے حالانکہ آپ جو کچھ انہیں بتلاتے اور سمجھاتے تھے وہ قرآن تھا جو رب العالمین کی طرف سے نصیحت کے طور پر نازل کیا گیا ہے۔ نبی کریم (ﷺ) مکہ کی تیرہ سالہ نبوت کی زندگی میں شب وروز کفار کو سمجھا تے رہے کہ آؤ اس دعوت کو قبول کرو اور جنت کے وارث بن جاؤ گے لیکن بدنصیبوں کا حال یہ تھا کہ وہ آپ کی دعوت قبول کرنے کی بجائے آپ کو دیوانہ کہتے تھے، اس صورت حال میں اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو اطمینان دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ آپ کو ان کی یا وہ گوئی کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہیے کیونکہ آپ اپنے رب کے فضل سے دیوانہ نہیں ہیں۔ پاگل تو وہ ہیں جو بیک وقت متضاد باتیں کر رہے ہیں ان کے پاگل پن کی دلیل یہ ہے کہ ایک طرف آپ کو کاہن کہتے ہیں اور دوسری طرف آپ کو مجنون کہتے ہیں حالانکہ مجنون اور کاہن کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ کاہن اور دیوانے کا فرق صفحہ 676پر ملاحظہ فرمائیں۔ مسائل: 1۔ نبی (ﷺ) توحید کی دعوت دیتے تو کفار آپ کو اس طرح گھور گھور کر دیکھتے جیسے وہ آنکھوں آنکھوں میں آپ کو کھا جائیں گے۔ 2۔ مشرکین لوگوں کو آپ کی دعوت سے دور کرنے کے لیے آپ کو دیوانہ کہتے تھے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو لوگوں کی نصیحت کے لیے نازل فرمایا ہے۔ تفسیر بالقرآن: انبیاء کرام (علیہ السلام) پر کفار کے الزامات : 1۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم نے کہا کہ ہم تمہیں جھوٹا تصور کرتے ہیں۔ (ہود :27) 2۔ کفار نے تمام انبیاء ( علیہ السلام) کو جادوگر اور دیوانہ قرار دیا۔ (الذاریات :52) 3۔ نبی (ﷺ) کو اہل مکہ نے جادوگر کہا۔ (الصف :6) 4۔ کفار آپ (ﷺ) کو شاعر قرار دیتے تھے۔ (الطور :30) 5۔ قوم فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو جادوگر ہونے کا الزام لگایا۔ (القصص :36) 6۔ کفار نبی کریم (ﷺ) کو جادوگر کہا کرتے تھے۔ (یونس :3) 7۔ کفار آپ کو کاہن اور مجنون کہتے تھے اللہ تعالیٰ نے جواباً فرمایا کہ آپ کاہن اور مجنون نہیں ہیں۔ (الطور :29) 8۔ کفار آپ پر الزام لگاتے تھے کہ آپ قرآن مجید خود بنا لیتے ہیں۔ (النحل :101) 9۔ کفار نبی اکرم کو جادوگر اور کذاب کہتے تھے۔ (ص :4) 10۔ ظالموں نے کہا تم جادو کیے گئے شخص کی پیروی کرتے ہو۔ (الفرقان :8) 11۔ کفار نے کہا کہ آپ (ﷺ) نے قرآن کو خودبنالیا ہے۔ (ہود :35) 12۔ کفار کے سامنے جب حق آیا تو انہوں نے کہا یہ تو جادو ہے۔ (سبا :43) 13۔ کفارکہتے ہیں کہ آپ (ﷺ) مجنوں ہیں۔ (القلم :51) 14۔ کفار نے کہا کیا ہم اپنے معبودوں کو شاعر ومجنوں کی خاطر چھوڑ دیں؟ (الصافات :36)